پاکستانی فوج کے ترجمان کی پریس کانفرنس کی پانچ اہم باتیں

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پشاور میں پریس کانفرنس منعقد کرنے کا مقصد یہاں کے عوام کو یقین دلانا ہے کہ فوج ان کے ساتھ کھڑی ہے۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے بہت عرصے بعد پشاور میں پریس بریفنگ منعقد کی۔ ان کے مطابق پشاور آنے کا مقصد یہاں کے عوام کو یہ یقین دلانا ہے کہ فوج ان کے ساتھ کھڑی ہے۔

انہوں نے پشاور آنے اور یہاں پریس کانفرنس کرنے کے مقصد کے حوالے سے بتایا، ’خیبر پختونخوا غیور شہدا کا صوبہ ہے اور ہم یہاں تجدید عہد کے لیے آئے ہیں کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔‘

ڈی جی آئی ایس پی آر کی تقریباً دو گھنٹے پر محیط پریس کانفرنس میں مختلف معاملات پر بات کی گئی، لیکن زیادہ تر بات چیت سکیورٹی معاملات پر مرکوز رہی۔

پریس کانفرنس میں پانچ اہم باتیں درج ذیل ہیں:

1: آپریشن کے خلاف صوبائی حکومت کا بیانیہ

ڈی جی آئی ایس پی آر نے اعداد و شمار پیش کر کے سب سے پہلے خیبر پختونخوا میں عسکریت پسندی کے خلاف جاری کارروائیوں کی بات کی۔

تاہم اس آپریشن کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ کچھ عرصے سے ایک خاص بیانیہ بنایا جا رہا ہے اور آپریشن کے خلاف باتیں ہو رہی ہیں، لیکن یہاں پر بنیادی مسئلے یعنی گورننس کے معاملات پر بات نہیں کی جاتی۔

انہوں نے کہا، ’40 ارب روپے کی کرپشن کی جاتی ہے، جبکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد میں ملنے والے ایک فیصد فنڈ کا کوئی حساب نہیں دیا جاتا کہ وہ روپے کہاں خرچ ہوتے ہیں۔‘

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ اسی بیانیے کی بنیاد پر ’دہشت گردی کو اس صوبے میں جگہ دی گئی ہے اور دہشت گردی کے مسئلے کو سیاست کے لیے استعمال کیا گیا۔‘

انہوں نے مزید کہا، ’مزید ایسی سیاسی شعبدہ بازیوں کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا جا سکتا اور صوبے میں انسدادِ دہشت گردی آپریشن جاری رہے گا، کیونکہ عسکریت پسندی کے خلاف کارروائی کی منظوری تمام سیاسی جماعتوں کی شمولیت سے نیشنل ایکشن پلان کے تحت دی گئی تھی۔‘

2: عسکریت پسندوں کے ساتھ بات چیت

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان اور صوبائی حکومت نے بارہا فوجی آپریشن کی مخالفت کی ہے اور عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے افغان طالبان سے بات چیت کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ اسی حوالے سے صوبائی حکومت نے افغانستان جانے کے لیے ایک وفد بھی تیار کیا تھا۔

تاہم ڈی جی آئی ایس پی آر نے آج کسی بھی قسم کی بات چیت کو رد کر دیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی سکیورٹی کی بھیک کابل سے نہیں مانگی جا سکتی اور نہ ہی ہر مسئلے کا حل بات چیت ہے۔ انہوں نے مثال دی کہ اگر ہر مسئلے کا حل بات چیت ہوتی تو پیغمبر اسلام کے دور میں غزوات اور فتوحات نہ ہوتیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا، ’سیاسی قیادت نے 2021 میں نظرثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان میں عہد کیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑیں گے، لیکن صوبے میں گورننس گیپ کا خمیازہ عوام کو خون کی صورت میں دینا پڑتا رہا ہے۔‘

ڈی جی نے بتایا، ’سکیورٹی ادارے سیاسی شعبدہ بازی سے کسی فرد واحد کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ عوام کی جان و مال اور عزت پر سودا کرے۔ حکومت افغانستان سے پاکستان کی سیکیورٹی کی بھیک مانگنے کے بجائے اپنی خود حفاظت کرے۔‘

ایسے افراد کے لیے ڈی جی نے تین چوائسز بتائیں کہ یا تو وہ ’خارجیوں‘ کو ریاست کے حوالے کریں، یا ریاست سے مل کر انہیں ختم کریں، اور یا پھر بھرپور ایکشن کے لیے تیار ہو جائیں۔

3: عدالتی نظام اور عسکریت پسندوں کو سزائیں

ڈی جی آئی ایس پی آر نے آج کی پریس کانفرنس میں عدالتی نظام پر زور دے کر بتایا کہ عسکریت پسندوں کو سزائیں نہ دینا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

اگست 2025 تک عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کے اعداد و شمار شیئر کرتے ہوئے ڈی جی کا کہنا تھا کہ 34 مقدمات زیر التوا ہیں، جبکہ 65 کو گرفتار کیا گیا لیکن ابھی تک ایک کو بھی سزا نہیں ہوئی ہے۔

اسی طرح، کاؤنٹر ٹیررزم کے پچھلے تین سالوں سے زائد عرصے میں چار ہزار 683 مقدمات زیر التوا ہیں، لیکن سزائیں دینے میں تاخیر ایک مسئلہ ہے۔

فوجی احتساب نظام کے حوالے سے انہوں نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ جو بھی اپنا عہدہ سیاسی اور ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرے گا، وہ ادارے کو جواب دہ ہو گا اور ان کا مقدمہ چل رہا ہے۔

4: پاکستان-افغانستان بارڈر کے بارے میں بیانیہ

ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے آج اس سوال کا جواب بھی دیا گیا کہ اگر پاکستان اور افغانستان بارڈر پر فینسنگ کی گئی ہے تو عسکریت پسند کیسے کراس کر کے پاکستان آتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ یہ بھی فوج کے خلاف ایک بیانیہ بنایا گیا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اتنی لمبی سرحد کو سنبھالنے کے لیے بہت بڑی فوج چاہیے ہوتی ہے۔

احمد شریف نے بتایا کہ ترقی یافتہ ممالک بھی بارڈر کو پوری طرح سیل نہیں کر سکتے، جیسے امریکہ اور میکسیکو بارڈر ہے۔

انہوں نے کہا، "بنیادی بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں بارڈر سیکیورٹی دونوں ممالک کی ذمہ داری ہوتی ہے، لیکن یہاں عسکریت پسندوں کو پہلے سرحد کراس کرنے میں دوسری جانب سے مدد فراہم کی جاتی ہے۔"

افغانستان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب سمیت ماضی میں برادر اسلامی ممالک کے ساتھ ٹی ٹی پی کا مسئلہ اٹھایا گیا ہے، لیکن افغان طالبان کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔

5: جو بھی آئے، یہ بیانیہ مزید نہیں چلے گا

آج کی پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح طور پر نام لیے بغیر پی ٹی آئی کی حکومت کو بتا دیا کہ مزید ریاستی اداروں کے خلاف بیانیہ نہیں چلے گا۔

جنرل احمد شریف نے بتایا کہ ’اسٹیبلشمنٹ ریاست پاکستان کا ادارہ ہے تو کوئی شخص ریاست کے خلاف کیسے ہو سکتا ہے؟‘

انہوں نے کہا، ’عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن نہ کریں تو کیا کریں؟ صوبے کے بچوں کو ان کے حوالے کریں؟ اپنی سڑکیں ان کے حوالے کریں؟ ہم حق پر ہیں اور باقی کون کیا کہتا ہے، اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان