خیبرپختونخوا پولیس کے مطابق جمعے کو سکیورٹی فورسز نے کرک میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانے پر کارروائی کی، جس کے بعد فائرنگ کے تبادلے کے نتیجے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے 17 عسکریت پسند مارے گئے۔
ریجنل پولیس چیف شہباز الٰہی نے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو بتایا کہ فائرنگ کے تبادلے کے دوران تین سکیورٹی اہلکار زخمی بھی ہوئے۔
انہوں نے مزید تفصیل نہیں دی لیکن کہا کہ مارے گئے عسکریت پسند ’خوارج‘ تھے۔ یہ اصطلاح حکام عموماً پاکستانی طالبان کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
گذشتہ چند برسوں میں پاکستان میں عسکریت پسندی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جن میں سے زیادہ تر کی ذمہ داری علیحدگی پسند گروپوں اور کالعدم ٹی ٹی پی نے قبول کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کرک میں سکیورٹی فورسز کی کارروائی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب دو دن قبل ہی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر ہونے والے آپریشن کے نتیجے میں پاکستانی طالبان کے 13 جنگجو مارے گئے تھے۔
پاکستان نومبر 2022 میں پاکستانی طالبان اور اسلام آباد کے درمیان طے پانے والی فائر بندی ختم کے بعد سے صوبے میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی پر قابو پانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔
ٹی ٹی پی افغان طالبان سے الگ گروہ ہے لیکن اس کی اتحادی ہے۔ 2021 میں افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد ٹی ٹی پی زیادہ دلیر ہو گئی ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ تب سے اس کے بہت سے رہنما اور عسکریت پسند افغانستان میں پناہ لے چکے ہیں۔
اسلام آباد نے کئی بار افغانستان پر اپنی سرزمین استعمال کرنے دینے اور انڈیا پر پاکستان کے خلاف حملوں کے لیے عسکریت پسند گروہوں کی پشت پناہی کرنے کے الزامات عائد کیے ہیں۔
تاہم کابل اور نئی دہلی ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
رواں ماہ کے وسط میں کالعدم ٹی ٹی پی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس کی قیادت کسی کے ساتھ بھی بات چیت اور مسائل کی حل کے لیے ’پاکستان کے اندر‘ ملاقات کے لیے تیار ہے۔
یہ بیان وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کے عسکریت پسندوں کے حوالے سے حالیہ سخت بیانات کے بعد جاری کیا گیا، جب انہوں نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ہمراہ بنوں کے دورے کے موقعے پر افغان عبوری حکومت کو ’واضح پیغام‘ دیا تھا کہ وہ پاکستان مخالف ’دہشت گردوں‘ کی ’پشت پناہی‘ اور حمایت یا پاکستان کے ساتھ تعلقات بنانے میں سے ایک راستے کا انتخاب کریں۔