رواں سال جولائی اور اگست میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور اتحاد المجاہدین پاکستان (آئی ایم پی) نے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ڈرون حملوں کی ویڈیوز اور ذمہ داری لینے کے بیان جاری کیے ہیں۔
مثال کے طور پر آئی ایم پی نے اپنے ماہانہ انفوگرافکس میں نو کواڈ کاپٹر حملوں کا دعویٰ کیا۔ آئی ایم پی سے منسلک سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے ویڈیوز شیئر کیں، جن میں کواڈ کاپٹرز کے ورچوئل ٹیک آف اور گروپ کی پہلی باضابطہ ویڈیو شامل تھی۔
اس ویڈیو میں شمالی وزیرستان کے ایک فوجی قلعے پر ڈرون کے ذریعے مارٹر گرتا ہوا دکھایا گیا۔
کواڈ کاپٹر حملے خیبر پختونخوا میں عسکریت پسند گرد گروہوں کے ہتھیاروں کے ذخیرے میں ایک نئی حکمت عملی کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
ٹی ٹی پی اور آئی ایم پی سے منسلک گروہ ڈرونز کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اگرچہ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور دیگر بلوچ علیحدگی پسند گروہ کواڈ کاپٹرز کو پروپیگنڈے اور نگرانی کے لیے استعمال کرتے ہیں، لیکن انہوں نے انہیں ابھی تک ہتھیار نہیں بنایا۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی فوٹیجز سے ظاہر ہوتا ہے کہ عسکریت پسند گروہ ڈرونز کو درستگی اور مہارت سے حملوں کے لیے استعمال کرنے کی صلاحیت حاصل کر رہے ہیں۔
اگرچہ اب تک کواڈ کاپٹرز نے چھوٹے پیمانے پر دھماکہ خیز مواد گرا کر محدود نقصان پہنچایا ہے، لیکن وقت کے ساتھ ان کی زیادہ مہلک ہونے کا خدشہ ہے۔
ان کے بڑھتے ہوئے استعمال سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مستحکم سپلائی چین قائم ہو چکی ہے اور طالبان یا القاعدہ کی طرف سے اس شعبے میں ٹی ٹی پی اور آئی ایم پی کو تکنیکی علم اور وسائل کی منتقلی ہو رہی ہے۔
علاوہ ازیں، ٹی ٹی پی نے ٹیلی گرام اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کم از کم تین دعوے کیے کہ اس نے فوج کے کواڈ کاپٹرز کو اینٹی ڈرون گنز سے نشانہ بنایا ہے۔
پہلا دعویٰ تین اگست کو سامنے آیا جب ٹی ٹی پی نے کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک گاؤں میں فوجی کواڈ کاپٹر کو ایک اینٹی ڈرون گن (جس کی قسم نہیں بتائی گئی) سے گرایا گیا۔
اسی طرح، 21 اگست کو ایک ویڈیو میں گروپ نے دعویٰ کیا کہ اس نے جنوبی وزیرستان میں مسلح جھڑپ کے دوران فوج کے دو ڈرونز کو مار گرایا۔
27 اگست کو تیسرے دعوے میں کہا گیا کہ ضلع خیبر کی وادیِ تیراہ میں ایک ڈرون مار گرایا گیا۔
ٹی ٹی پی اور آئی ایم پی کی ڈرونز کو ہتھیار بنانے اور استعمال کرنے کی صلاحیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ طالبان اور القاعدہ سے ان گروہوں کو علم اور وسائل کی منتقلی ہو رہی ہے۔
افغانستان میں ان کے محفوظ ٹھکانے اس ضمن میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جہاں وہ ڈرونز خریدتے، ان پر تجربات کرتے اور مہارت حاصل کرتے ہیں۔
جب تک افغانستان میں ٹی ٹی پی، آئی ایم پی اور بی ایل اے کی دوبارہ تنظیم نو اور طالبان کی طرف سے ان کی معاونت کا مسئلہ حل نہیں ہوتا، پاکستان کے اندرونی سلامتی کے مسائل بڑھتے رہیں گے۔
عسکریت پسند گروہوں کی ڈرونز میں دلچسپی کوئی نئی بات نہیں۔ جاپان میں 1995 میں آوم شنرِکیو نے ٹوکیو سب وے حملے میں سارِن گیس گرانے کے لیے ریموٹ ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کا سوچا تھا مگر آخری لمحے پر حکمتِ عملی بدل دی۔
حزب اللہ، حماس، داعش اور حیات تحریر الشام وہ ابتدائی گروہ تھے جنہوں نے ڈرونز کو ہتھیار بنایا۔ یمن میں حوثی باغی 2018 میں اس فہرست میں شامل ہو گئے۔
دوسری لہر میں دو درجن سے زائد باغی، دہشت گرد اور کارٹیل گروہوں نے بھی ڈرونز کو اپنے اسلحہ خانے میں شامل کیا، ان میں افغان طالبان شامل ہیں۔
اب دنیا بھر میں تنازعات میں ڈرون حملوں کے بڑھنے کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔محفوظ ٹھکانے عسکریت پسند گروہوں کے لیے نہایت اہم ہیں کیونکہ یہ انہیں موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ سکون سے ڈرونز خریدیں، ان پر تجربات کریں اور انہیں کامیابی سے استعمال کریں۔
افغان طالبان کی طرف سے ٹی ٹی پی اور آئی ایم پی کو دی جانے والی پناہ نے انہیں اپنے ہتھیاروں کے ذخیرے میں ڈرون شامل کرنے کے قابل بنایا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے برعکس داعش خراسان (آئی ایس کے پی) نے اگرچہ سب سے پہلے ڈرون مینولز سوشل میڈیا پر جاری کیے اور یہ زیادہ ٹیکنالوجی فہم گروہ ہے، مگر پناہ گاہ نہ ملنے کی وجہ سے وہ ہتھیار بند ڈرون استعمال نہیں کر سکا۔
ٹی ٹی پی اور آئی ایم پی کی ڈرونز میں ترمیم اور انہیں ہتھیار بنانے کی صلاحیت بھی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ گروہوں کے درمیان تکنیکی علم اور وسائل کی منتقلی ہو رہی ہے۔
تاہم یہ واضح نہیں کہ انہیں طالبان یا القاعدہ سے براہِ راست مدد اور مالی تعاون ملا یا نہیں۔
ایک حالیہ ویڈیو میں القاعدہ کے میڈیا پلیٹ فارم ’الملاحم‘ نے ٹی ٹی پی کی تربیتی فوٹیجز نشر کیں، جس سے یہ تاثر مزید مضبوط ہوا کہ تکنیکی علم القاعدہ سے منتقل ہو سکتا ہے۔
اگر واقعی ایسا ہے تو مستقبل میں ٹی ٹی پی اور آئی ایم پی زیادہ جدید حکمتِ عملیاں اپنائیں گے، جیسے کہ ڈرونز کو دیگر ہتھیاروں کے ساتھ یکجا کر کے استعمال کرنا۔
مثال کے طور پر جولائی میں ٹی ٹی پی نے جنوبی وزیرستان میں ایک فوجی قافلے پر گھات لگا کر حملہ کیا اور فائرنگ کے دوران کواڈ کاپٹر سے مارٹر گرا کر تین فوجیوں کو جان سے مارا اور تین کو زخمی کیا۔
یہ حکمتِ عملی ڈرونز کو دیگر ہتھیاروں کے ساتھ مربوط انداز میں استعمال کرنے کی ایک مثال ہے۔
عسکریت پسند گروہ تجارتی ڈرون بھی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ ان گنجائش اور دیر تک اڑنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔
اس کے نتیجے میں مستقبل میں کواڈکوپٹر حملوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔ایسے میں پاکستان کو اپنی افواج کی تکنیکی، آپریشنل اور مہلک صلاحیتوں میں سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مصنف ایس راجاراتنام سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور میں سینیئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔ X: @basitresearcher