ڈرون ڈیجیٹل بمبار ہے

جموں کے ہوائی اڈے پر ڈرون حملوں کی بھارتی خبروں کے بعد اس بات پر یقین کرنا انتہائی مشکل ہے کہ اس طرح کا حملہ کشمیر کے آزادی پسند کرسکتے ہیں جن کے پاس ڈرون کیا، بندوق بھی نہیں ہے۔

بھارت کے پاس اسرائیل کے کامی کازے ڈرونز موجود ہیں جو کہیں سے بھی آنے والے مشینی بم کی پیشگی وارننگ دے کر ان کو ناکارہ بنا سکتے ہیں مگر خبروں کے مطابق ابھی تک ان کا استعمال نہیں کیا گیا ہے۔(اے ایف پی)

 

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں


جموں کے ہوائی اڈے پر چند روز پہلے ڈرون حملوں کی بھارتی میڈیا کی خبر کے بعد یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا موجودہ ڈیجیٹل دور میں جنگی حکمت عملی تبدیل ہو رہی ہے یا فدائی حملوں کی جگہ اب مشینی بم کا استعمال کیا جائے گا؟

گوکہ بھارتی میڈیا نے ان حملوں کی ذمہ داری فورا پاکستان پر ڈال کر جنگی جنون بھڑکانے کی بھر پور کوشش کی لیکن حکومت کی طرف سے پہلی بار اس پر کافی احتیاط برتی گئی۔

محسوس کیا گیا کہ لائن آف کنٹرول پر سیزفائر سمجھوتے پر ایک تو دونوں ملک کاربند دکھائی دیئے دوسرا بیان بازی سے بھی گریز کرنے کی حتی الامکان کوشش کی گئی۔ البتہ بھارت کے دفاعی اور سکیورٹی حلقوں میں ڈرون حملوں کے ممکنہ خطرات پر تشویش ضرور پائی جاتی ہے جس کا توڑ کرنے اور ڈیجیٹل مشینری استعمال کرنے کی حکمت عملی پر زور دیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں اعلی سطحی میٹنگ بلائی گئی اور سکیورٹی اداروں کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی فراہم کرنے پر غور و خوص کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے کہ جموں سمیت انتہائی حساس ہوائی اڈوں اور فوجی تنصیبات پر ڈرون ناکارہ بنانے کے جیمرز نصب کیے جائیں گے۔

دریں اثنا سری نگر میں لیفٹنٹ جنرل ڈی پی پانڈے نے ایک میڈیا چینل سے گفتگو کے دوران کہا ہے کہ ’ڈرون حملوں کے پیچھے ریاستی کردار کا اشارہ ملتا ہے اور ان میں لشکر طیبہ یا جیش محمد کی شمولیت نظر آتی ہے۔‘

البتہ بھارت کے دفاعی اور سکیورٹی حلقوں میں ڈرون حملوں کے ممکنہ خطرات پر تشویش ضرور پائی جاتی ہے۔ اس کا توڑ کرنے اور ڈیجیٹل مشینری استعمال کرنے کی حکمت عملی پر زور دیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں اعلی سطحی اجلاس طلب کیا گیا اور سکیورٹی اداروں کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی فراہم کرنے پر غور و خوص کیا گیا۔

پاکستان کے بیشتر دفاعی اور عوامی حلقوں نے خدشہ جتا کر جموں حملوں کو ایک اور سازش سے تعبیر کیا۔ بعض کا خیال ہے کہ بھارت بالاکوٹ طرز کا دوسرا حملہ کرنے کا جواز تیار کر رہا ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ نے ڈرون حملے میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں 'غیر ذمہ دارانہ' قرار دیا۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ 'پاکستان جموں کشمیر میں مبینہ ڈرون حملے کے حوالے سے بھارتی وزیر داخلہ کشن ریڈی کے گمراہ کن اور غیر ذمہ دارانہ بیان کو یکسر مسترد کرتا ہے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ 'یہ کسی بھی الزام کو خارج کرنے کی جانی پہچانی بھارتی چال ہے کہ پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزامات کو منظر دھندلانے کے لیے استعمال کیا جائے اور کشمیریوں کی حق خود ارادیت کے لیے جاری مقامی جدو جہد کو کمزور کیا جائے۔

بھارت کے پاس اسرائیل کے کامی کازے ڈرونز موجود ہیں جو کہیں سے بھی آنے والے مشینی بم کی پیشگی وارننگ دے کر ان کو ناکارہ بنا سکتے ہیں مگر خبروں کے مطابق ابھی تک ان کا استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ بیشتر لداخ بھیج دیئے گئے ہیں جہاں حالیہ چند مہینوں سے بھارت نے چین کے ساتھ سرحدی کشیدگی کے بعد بڑی تعداد میں فوج اور جنگی مشینری میں بھیجی ہے۔ جموں میں ڈرون حملے کے وقت بھی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ لداخ کے دورے پر تھے۔

جموں ہوائی اڈے پر ڈرون حملوں کی تحقیقات میں ابھی تک ظاہر نہیں ہوا ہے کہ یہ ڈرون کہاں سے آئے، کہاں لوٹ کے واپس گئے اور ان کی ساخت کس ملک کی تھی بلکہ ان کا ملبہ بھی جائے وقعہ پر نہیں ملا ہے۔

انڈین میڈیا کے بقول یہ ڈرون لائن آف کنٹرول کے قریب سے اُڑائے گئے ہیں جو ہوائی اڈے سے محض نو میل کی دوری پر ہے۔ بھارت کے مرکزی سراغ رساں ادارے نے انکشاف کیا ہے کہ 5 اگست 2019 کے بعد پاکستانی سرحد کے قریب تقریباً تین سو ڈرونز گشت کرتے دیکھے گئے ہیں۔

پاکستان کے پاس ڈرون بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ سن 2000 کی دہائی میں براق نامی ڈرون پہلی بار شمالی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف استعمال میں لایا گیا تھا۔

اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ کے بعد پاکستان پہلا ملک ہے جس نے مسلح ڈرون استعمال کرنے کی صلاحیت حاصل کی ہے۔ حال ہی میں پاکستان نے چین اور ترکی سے ڈرون بنانے کی جدید ٹیکنالوجی حاصل کرنے سے متعلق ایک جامعہ پالیسی بھی ترتیب دی ہے۔

مغرب کے بعض دفاعی پالیسی ساز اداروں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ چین ان چند طاقتور ملکوں میں شامل ہے جس کے پاس سب سے زیادہ موثر ڈرون ٹیکنالوجی ہے اور پاکستان سمیت بیشتر ممالک اس سے پہلے ہی مستفید ہو رہے ہیں۔ اس بات کا اشارہ حالیہ دنوں میں تبت میں دونوں ممالک کی فوجی مشقوں سے ملا جس کو بھارت کے بیشتر دفاعی ماہرین نے اپنے ملک کے لیے ایک خطرناک عندیہ قرار دیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی دوران ترکی دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے ڈرون کے استعمال سے پہلی جنگ جیت لی ہے۔ آذربائیجان اور آرمینیا کی گذشتہ برس کی جنگ میں ترکی کے ڈرونز کا خوب مظاہرہ ہوا ہے جب ان کی وساطت سے نگورنو کاراباخ کے متنازعہ خطے کو آزاد کروا کے واپس آذربائیجان کی تحویل میں دیا گیا۔

سن نوے میں آرمینیا نے نگورنو کاراباخ پر قبضہ کرلیا تھا جس کی پوزیشن بالکل جموں و کشمیر سے ملتی ہے جو دو ملکوں کے بیچ میں 70 برسوں سے جنگوں اور ٹکراؤ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

یہ تاریخ کا پہلا واقعہ ہے جب کسی ملک نے صرف ڈرون ٹیکنالوجی سے اپنا خطہ واپس حاصل کیا ہے۔ آزربائیجان کو آرمینیا کے خلاف جنگی سازوسامان اور افواج کا اتنا استعمال نہیں کرنا پڑا جتنا سن نوے یا اس سے پہلے کسی جنگ میں کرنا پڑا تھا۔ ڈرون حملوں سے انسانی جانوں کا نقصان بھی نہیں دیکھا گیا جیسا کہ اکثر جنگوں میں ہوتا ہے۔

ایک سادہ سا ڈرون بنانے کے لیے تقریباً بیس ہزار روپے درکار ہوتے ہیں اور یہ آٹھ سے دس کلو گرام تک آتش گیر مادہ اُٹھا کر نشانے پر گرا سکتا ہے۔ ہوائی اڈودں پر نصب راڈار سے ان کی نشاندہی نہیں ہوتی ہے۔

اب تک ڈرونز کی پیشگی اطلاع دے کر اس کو ناکارہ بنانے کی ٹیکنالوجی اسرائیل اور امریکہ سمیت چند ملکوں کے پاس ہے مگر یہ بھی خبریں ہیں کہ بھارت کو اسرائیل سے یہ ٹیکنالوجی حاصل ہوئی ہے۔ پاکستان نے ڈرون بنانے، ناکارہ کرنے اور ان کی پیشگی اطلاع دینے کی صلاحیت پہلے ہی حاصل کی ہے اور وہ اس میں بڑی حد تک باقی ملکوں سے سبقت حاصل کر چکا ہے۔

جرمنی کی ایک تھنک ٹینک سے وابستہ دفاعی ماہر وامک بنسل کہتے ہیں کہ ’افغانستان کے اکثر جنگجو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ڈرون ٹیکنالوجی سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ تباہ ہونے والے اسلحہ یا طیاروں کے ملبے سے ڈرون اور دوسری جنگی مشینیں بنانے کے ماہر بھی بن چکے ہیں۔

اگر یہ ٹیکنالوجی افغان مجاہدین کی طرح گوریلا طرز کی تحریکوں میں استعمال ہونے لگی تو بیشتر خطوں میں قائم فوجی تنصیبات، ہوائی اڈے اور دفاع کے اہم ادارے اس کی زد میں آسکتے ہیں۔‘

جموں کے ہوائی اڈے پر ڈرون حملوں کی بھارتی خبروں کے بعد اس بات پر یقین کرنا انتہائی مشکل ہے کہ اس طرح کا حملہ کشمیر کے آزادی پسند کرسکتے ہیں جن کے پاس ڈرون کیا، بندوق بھی نہیں ہے۔ پھر بھی اگر ایسا کرسکتے ہیں تو اس سے نہ صرف مسلح تحریک ایک نئے دور میں داخل ہوگی بلکہ برصغیر کی جنگی پالیسی بھی نیا رخ اختیار کرسکتی ہے۔

بقول ایک کشمیری صحافی ’ہوسکتا ہے کہ جموں کے حملے کے پیچھے پھر وہی عناصر سرگرم عمل ہیں جو پلوامہ خودکش حملے کے پیچھے تھے، جن کا مقصد انتخابی شکست کو جیت میں تبدیل کرنا تھا کیونکہ اترپردیش کے ریاستی انتخابات پارلیمانی انتخابات کا پیش لفظ ہوتاہے جہاں حکمران جماعت کی کارکردگی سوالیہ نشان بن چکی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ