انڈیا پاکستان ڈرون جنگ: ہتھیاروں کی نئی دوڑ کا آغاز

حالیہ جنگ سے پاکستان اور انڈیا دونوں نے سبق سیکھا ہے کہ انہیں ڈرون پر زیادہ سرمایہ کاری کرنا چاہیے۔

2013 میں پیرس ائیر شو میں ہیروپ ڈرون (Julian Herzog - CC BY 4.0)

آٹھ مئی کو رات آٹھ بجے کے لگ بھگ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے شہر جموں کے آسمان پر اس وقت سرخ شعلے لپکنے لگے جب فضائی دفاعی نظام نے پڑوسی ملک پاکستان سے آنے والے ڈرونز پر فائرنگ کھول دی۔

انڈیا اور پاکستان کی افواج کئی دہائیوں سے جھڑپوں کے دوران جدید لڑاکا طیارے، روایتی میزائل اور توپ خانہ استعمال کرتی آئی ہیں، لیکن مئی میں چار دن کی اس لڑائی کے دوران پہلی بار نئی دہلی اور اسلام آباد نے ایک دوسرے کے خلاف وسیع پیمانے پر بغیر پائلٹ کے طیارے استعمال کیے۔

لڑائی اس وقت رکی جب امریکہ نے اعلان کیا کہ اس نے جنگ بندی کرائی ہے، لیکن روئٹرز نے انڈیا اور پاکستان کے 15 افراد، جن میں سکیورٹی اہلکار، صنعت سے وابستہ افراد اور تجزیہ کار شامل ہیں سے گفتگو کی، جس یہ بات سامنے آئی کہ دونوں ملک، جنہوں نے گذشتہ سال دفاع پر 96 ارب ڈالر سے زائد خرچ کیے، اب ڈرون ہتھیاروں کی دوڑ میں الجھ چکے ہیں۔

دو ماہرین کا کہنا تھا کہ انہیں توقع ہے کہ ایٹمی ہتھیار رکھنے والے یہ دونوں پڑوسی ممالک ڈرونز کے استعمال میں اضافہ کریں گے، کیوں کہ چھوٹے پیمانے کے ڈرون حملے عملے کو خطرے میں ڈالے بغیر اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں اور ایسی کارروائیوں کے ہاتھوں سے نکلنے کے امکان بھی کم ہوتے ہیں۔

ڈرون فیڈریشن انڈیا کے سمت شاہ، جو 550 سے زائد کمپنیوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور حکومت سے باقاعدہ رابطے میں رہتے ہیں، نے بتایا کہ انڈیا مقامی ڈوروں صنعت میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور آئندہ 12 سے 24 ماہ میں بغیر پائلٹ طیاروں پر تقریباً 47 کروڑ ڈالر تک خرچ کر سکتا ہے، جو  لڑائی سے پہلے کی سطح سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔

یہ پیش گوئی، جو پہلے رپورٹ نہیں کی گئی، ایسے وقت سامنے آئی ہے جب انڈیا نے اس ماہ ہنگامی فوجی خریداری کے لیے تقریباً 4.6 ارب ڈالر کی منظوری دی ہے۔ اس بات کی تصدیق دو اور صنعت کاروں نے بھی کی۔ معاملے سے واقف دو انڈین حکام کے مطابق، انڈین فوج اس اضافی رقم کا کچھ حصہ لڑاکا اور نگرانی کرنے والے ڈرونز پر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈین یو اے وی کمپنی آئیڈیا فورج ٹیکنالوجی کے نائب صدر وشال سکسینہ نے کہا کہ انڈیا میں دفاعی سازوسامان کی خریداری عام طور پر کئی سال پر مشتمل بیوروکریسی کے مراحل سے گزرتی ہے، لیکن اب حکام اس رفتار سے ڈرون بنانے والی کمپنیوں کو تجربات اور مظاہرے کے لیے بلا رہے ہیں جس کی مثال نہیں ملتی۔

ادھر صورت حال سے واقف پاکستانی ذرائع نے بتایا کہ پاکستانی فضائیہ مزید ڈرونز حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ اپنے جدید طیاروں کو خطرے میں ڈالنے سے بچا سکے۔ تازہ جھڑپوں کے دوران پاکستان اور انڈیا دونوں نے جدید ترین جنریشن 4.5 کے لڑاکا طیارے تعینات کیے، لیکن مالی مشکلات سے دوچار اسلام آباد کے پاس صرف تقریباً 20 چینی ساختہ جدید جے10 طیارے ہیں جب کہ دہلی کے پاس تین درجن رفال طیارے موجود ہیں۔

ڈیفنس انٹیلی جنس کمپنی جینز سے وابستہ اویشی موجمدار نے کہا کہ پاکستان ممکنہ طور پر موجودہ شراکت داریوں کو بنیاد بنا کر چین اور ترکی کے ساتھ تعاون کو مزید مضبوط کرے گا تاکہ مقامی سطح پر ڈرونز کی تحقیق اور پیداوار کی صلاحیتوں کو فروغ دیا جا سکے۔

پاکستانی ذریعے نے بتایا کہ اسلام آباد، پاکستان کے نیشنل ایرو اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارک اور ترک دفاعی کنٹریکٹر بائیکار کے درمیان شراکت پر انحصار کر رہا ہے جو وائی آئی ایچ اے تھری قسم کے ڈرون کو مقامی سطح پر اسمبل کرتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایک یونٹ دو سے تین دن کے اندر ملک میں تیار کیا جا سکتا ہے۔

پاکستانی فوج نے روئٹرز کے سوالات کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔ انڈین وزارت دفاع اور بائیکار نے تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

کنگز کالج لندن کے سیاسی ماہر والٹر لیڈوگ سوم نے کہا کہ انڈیا اور پاکستان ’ڈرون حملوں کو عسکری دباؤ ڈالنے کے ایک ایسے ذریعے کے طور پر دیکھتے ہیں، جو فوری طور پر کسی بڑے پیمانے پر خرابی کا سبب نہیں بنتا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’یو اے ویز قیادت کو یہ موقع دیتے ہیں کہ وہ اپنے عزم کا مظاہرہ کریں، نمایاں نتائج حاصل کریں، اور اندرون ملک توقعات کو سنبھال سکیں، وہ بھی کسی مہنگے طیارے یا پائلٹ کو خطرے میں ڈالے بغیر۔‘

لیکن ایسی جھڑپیں مکمل طور پر خطرے سے خالی نہیں ہوتیں۔ لیڈوگ نے نشاندہی کی کہ ممالک یو اے ویز کو ایسے متنازع یا گنجان آباد علاقوں پر حملے کے لیے بھیج سکتے ہیں جہاں وہ پہلے انسانی عملے والے پلیٹ فارم استعمال کرنے سے گریز کرتے تھے۔

ڈرون جتھوں اور پرانے ہتھیاروں کا استعمال

مئی میں ہونے والی لڑائی، جو اس صدی میں پڑوسی ممالک کے درمیان سب سے شدید تھی، 22 اپریل کو متنازع ہمالیائی خطے کشمیر میں ہونے والے ایک عسکریت پسند حملے کے بعد شروع ہوئی، جس میں 26 افراد کی جان گئی جن میں زیادہ تر انڈین سیاح تھے۔

دہلی نے ان اموات کا الزام اسلام آباد کی پشت پناہی رکھنے والے ’دہشت گردوں‘ پر لگایا، جب کہ پاکستان نے اس الزام کی تردید کی۔ انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے بدلہ لینے کا اعلان کیا اور دہلی نے سات مئی کو پاکستان میں موجود ان مقامات پر فضائی حملے کیے جنہیں اس نے ’دہشت گردوں کے بنیادی ڈھانچے‘ قرار دیا۔

پاکستانی حکام کے مطابق اگلی رات،  پاکستان نے انڈیا کے ساتھ 1700 کلومیٹر (772 میل) طویل سرحد پر جھتوں کی شکل میں ڈرون بھیجے، جن میں سے 300 سے 400 تک ڈرونز نے 36 مختلف مقامات سے داخل ہو کر انڈین فضائی دفاع کو جانچنے کی کوشش کی۔

دو پاکستانی ذرائع کے مطابق، پاکستان نے ترکی ساختہ وائے آئی ایچ اے قسم کے اور اسس گارڈ سونگر ڈرونز کے علاوہ سرکاری ملکیت والے ادارے گلوبل انڈسٹریل اینڈ ڈیفنس سلوشنز کے تیار کردہ شہپرٹو یو اے وی پر انحصار کیا۔

لیکن انڈین حکام کے مطابق، ان میں سے زیادہ تر ڈرونز کو انڈیا کے سرد جنگ کے دور کے طیارہ شکن گنز نے مار گرایا، جنہیں سرکاری ادارے بھارت الیکٹرانکس کے تیار کردہ جدید فوجی ریڈار اور مواصلاتی نیٹ ورک سے جوڑ دیا گیا تھا۔

ایک پاکستانی ذریعے نے آٹھ مئی کو بڑی تعداد میں ڈرونز کے مار گرائے جانے کی تردید کی، تاہم اس ڈرون حملے سے انڈیا کو بظاہر کوئی نمایاں نقصان نہیں پہنچا۔

ریٹائرڈ انڈین بریگیڈیئر انشومن نارنگ، جو اس وقت دہلی کے سینٹر فار جوائنٹ وارفیئر سٹڈیز میں یو اے وی کے ماہر ہیں، نے کہا کہ انڈیا کی جانب سے ان اینٹی ایئرکرافٹ گنز کا استعمال، جنہیں ڈرون وارفیئر کے لیے نہیں بنایا گیا، حیران کن حد تک مؤثر ثابت ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ میری توقع سے دس گنا بہتر تھا۔‘

ایک انڈین اور دو پاکستانی ذرائع کے مطابق، انڈیا نے اسرائیلی ہیرپ، پولینڈ کے وارمیٹ  اور مقامی طور پر تیار کردہ یو اے ویز بھی پاکستانی فضائی حدود میں بھیجے۔ ان میں سے کچھ کو دو انڈین حکام کے مطابق فوجی اور شدت پسندوں کے ڈھانچوں پر درست نشانے کے ساتھ حملوں کے لیے استعمال کیا گیا۔

دو پاکستانی سکیورٹی ذرائع نے تصدیق کی کہ انڈیا نے بڑی تعداد میں ہیرپ ڈرونز تعینات کیے جو اسرائیل ایرو سپیس انڈسٹریز کا تیار کردہ طویل فاصلے تک مار کرنے اور فضا میں موجود رہنے والا ہتھیار ہے۔ ایسے یو اے ویز، جنہیں خودکش ڈرونز بھی کہا جاتا ہے، ہدف کے اوپر چکر لگاتے ہیں اور پھر نشانے پر گر کر دھماکے سے پھٹ جاتے ہیں۔

ایک تیسرے پاکستانی ذریعے نے بتایا کہ پاکستان نے بعض علاقوں میں جعلی ریڈار نصب کیے تاکہ ہیرپ ڈرونز کو اپنی جانب کھینچا جا سکے، یا ان کے پرواز کے وقت کے ختم ہونے کا انتظار کیا جاتا تاکہ وہ 3000 فٹ سے نیچے آ جائیں اور انہیں مار گرایا جا سکے۔

دونوں فریقوں نے یو اے ویز کے استعمال میں کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا۔

کنگز کالج لندن کے لیڈوگ کے مطابق، انڈیا نے پاکستان کے اندر موجود ڈھانچوں کو کامیابی سے نشانہ بنایا، وہ بھی عملے یا اہم نظاموں کو خطرے میں ڈالے بغیر۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی فوج، جس نے یو اے ویز کے ذریعے انڈین دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا، ڈرون حملوں کے ذریعے کارروائی کا اشارہ دے سکتی ہے اور یہ طریقہ روایتی طریقوں کی نسبت کم بین الاقوامی توجہ کا باعث بنتا ہے۔

ڈرونز سستے ہیں لیکن ان میں ایک خامی ہے

بہت سے ڈرونز کے ضیاع کے باوجود، دونوں فریق اس ٹیکنالوجی پر انحصار مزید بڑھا رہے ہیں۔

واشنگٹن میں مقیم جنوبی ایشیا کے ماہر مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ ’ہم نسبتاً سستی ٹیکنالوجی کی بات کر رہے ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ ’اگرچہ یو اے ویز میں میزائلوں اور لڑاکا طیاروں جیسا طاقتور اثر نہیں ہوتا، پھر بھی یہ استعمال کرنے والوں کی طاقت اور مقصد کا اظہار ضرور کرتے ہیں۔‘

ایک انڈین سکیورٹی ذریعے اور انڈین یو اے وی کمپنی نیو سپیس کے سمیر جوشی کے مطابق، انڈین دفاعی منصوبہ ساز ایسے گھومنے والے ہتھیاروں والے یو اے ویز کی مقامی تیاری کو وسعت دینے کا امکان رکھتے ہیں، اور نیو سپیس ان ڈرونز پر اپنی تحقیق اور ترقی کو مزید فروغ دے رہی ہے۔

جوشی، جن کی کمپنی انڈین فوج کو فراہم کرتی ہے، نے کہا: ’ایسے ڈرونز کی گھومتے رہنے، پکڑے نہ جانے اور درست نشانہ لگانے کی صلاحیت نے کم قیمت میں زیادہ اثر والی جنگ کی طرف رخ موڑ دیا ہے، جس میں بڑے پیمانے پر تیار کردہ ڈرونز استعمال کیے جاتے ہیں۔‘

سکسینہ نے کہا کہ آئیڈیا فورج جیسی کمپنیاں، جنہوں نے انڈین سکیورٹی فورسز کو 2000 سے زائد یو اے ویز فراہم کیے ہیں، اب اس پر سرمایہ کاری کر رہی ہیں کہ ان کے ڈرونز کو الیکٹرانک جنگ میں کمزور ہونے سے کیسے بچایا جائے۔

چار انڈین ڈرون ساز اداروں اور حکام نے بتایا کہ ایک اور کمزوری جسے دور کرنا مشکل ہے، وہ انڈین ڈرون پروگرام کا ان اجزا پر انحصار ہے جو چین سے آتے ہیں، جو پاکستان کا مستند فوجی شراکت دار ہے، اور جنہیں بدلنا آسان نہیں۔

ڈرون فیڈریشن انڈیا کے شاہ کے مطابق، انڈیا اب بھی یو اے وی بیٹریوں کے لیے چین میں بنے مقناطیس اور لتھیئم پر انحصار کرتا ہے۔

آئیڈیا فورج کے سکسینہ کے بقول: ’سپلائی چین کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا بھی ایک مسئلہ ہے۔‘ یہ امکان ظاہر کرتے ہوئے کہ بیجنگ بعض حالات میں ان پرزوں کی فراہمی بند کر سکتا ہے۔

تھنک ٹینک سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے مطابق، چین کی جانب سے یوکرین کو ڈرونز اور پرزہ جات کی فروخت پر پابندیوں نے کیئف کی اہم جنگی ڈرونز بنانے کی صلاحیت کو کمزور کر دیا ہے۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے روئٹرز کے سوالات کے جواب میں کہا کہ بیجنگ ہمیشہ دوہرے استعمال کی اشیا پر برآمدی کنٹرولز کو ملکی قوانین، ضوابط اور اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کے تحت نافذ کرتا ہے۔

شاہ نے کہا کہ ’سپلائی چین کو متنوع بنانا درمیانی سے طویل مدت کا مسئلہ ہے۔ آپ اسے قلیل مدت میں حل نہیں کر سکتے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا