آج وینزویلا، کل کوئی اور؟ امریکی پالیسی دنیا کے لیے خطرہ

نئی امریکی پالیسی کا خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ اب دنیا کا چوہدری بننے سے دستبردار ہو رہا ہے چاہے ٹرمپ جنوب مشرقی ایشیا سے وسطی افریقہ اور مشرق وسطیٰ تک امن معاہدوں کا سہرا اپنے سر کیوں نہ باندھتے رہیں۔

وینزویلا پر دباؤ بڑھانے کے لیے امریکہ نے کیریبئن میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بحری بیڑے یو ایس ایس جیرالڈ فورڈ کو تعینات کیا ہے (اے ایف پی)

ڈونلڈ ٹرمپ ایک ایسے بچے کی طرح خوش دکھائی دے رہے تھے جس نے اپنے ہم عمر سے کھلونا چھین لیا ہو۔ وہ فخر سے کہہ رہے تھے کہ یہ ’اب تک کی سب سے بڑی‘ کارروائی تھی۔ مگر بدقسمتی سے یہاں ’کھلونا‘ نہیں بلکہ ایک بحری آئل ٹینکر تھا جسے امریکی فوجی آپریشن میں روک کر قبضے میں لیا گیا۔

یہ ایک ایسی کارروائی تھی جسے مغربی دنیا کے بڑے حصے نے سمندری قزاقی قرار دیا ہے۔

امریکی اٹارنی جنرل کے مطابق یہ ٹینکر امریکی پابندیوں کی فہرست میں شامل تھا کیونکہ وہ ’غیر قانونی تیل کی سمگلنگ کے ایسے نیٹ ورک کا حصہ تھا جو غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی مدد کرتا ہے۔‘

بظاہر یہ ٹینکر وینزویلا سے کیوبا جا رہا تھا لیکن یہ واضح نہیں کہ اصل ہدف ایندھن کی کمی کا شکار کیوبا تھا، سیاسی طور پر مشکل صورت حال کا سامنا کرنے والا وینزویلا، یا پھر وہ ٹینکر خود۔ ممکن ہے کہ تینوں میں سے کوئی بھی ہدف ٹرمپ انتظامیہ کے لیے قابل قبول ہو۔

یہ ابھی واضح نہیں کہ امریکہ وینزویلا پر اپنے اثر و رسوخ کو کہاں تک بڑھائے گا۔ وہ پہلے ہی یہ دعویٰ کر کے کہ جہاز منشیات لے جا رہے تھے، بحیرہ کیریبین میں درجنوں کشتیاں ڈبو چکا ہے اور وینزویلا کی فضائی حدود بھی ’بند‘ قرار دے چکا ہے۔

آخری اور سب سے سخت اقدام دباؤ یا طاقت کے ذریعے صدر نکولس مادورو کو ہٹانا ہو سکتا ہے، جنہیں امریکہ ایک جعلی انتخاب کے ذریعے حاصل کی گئی ناجائز حکومت کا سربراہ سمجھتا ہے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ امریکی عوام اس طرح کی کارروائی کے حق میں نہیں اور اگلے برس وسط مدتی انتخابات سے پہلے اگر کوئی آپریشن ناکام ہوا تو یہ ٹرمپ اور رپبلکن پارٹی کے لیے مادورو کو چھوڑ دینے سے کہیں بڑا سیاسی نقصان بن سکتا ہے۔

وینزویلا کے خلاف امریکی اقدامات ٹرمپ کی دوسری مدت کی خارجہ پالیسی کا پہلا عملی مظاہرہ سمجھے جا رہے ہیں جیسا کہ گذشتہ ہفتے شائع ہونے والی امریکی قومی سلامتی حکمت عملی میں بیان کیا گیا ہے۔

یورپ میں اس دستاویز پر سب سے زیادہ توجہ اس بات پر دی گئی کہ امریکی نقطہ نظر کے مطابق پورا یورپی براعظم ایک غلط سمت میں جا رہا ہے۔ نتیجہ یہ نکالا گیا کہ یورپ کو اپنی سکیورٹی خود سنبھالنی چاہیے کیونکہ اب امریکہ پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایسی بات ہے جو امریکہ پہلے بھی کہتا رہا ہے لیکن اب اس دعوے میں زیادہ سختی اور جلدی بازی دکھائی دیتی ہے۔

اسی لیے یہ تشویش بھی پھیلی ہے کہ امریکہ یورپ کو چھوڑنے والا ہے اور یوکرین اس کا پہلا قدم ہو سکتا ہے۔ نیٹو کے سیکریٹری جنرل مارک روٹے کا یہ بیان کہ ’ہم، یورپ روس کا اگلا ہدف ہیں‘ یورپی دفاعی حلقوں کی اسی گھبراہٹ کی ترجمانی کرتا ہے۔

تاہم زیادہ توجہ اس بات پر ہونی چاہیے کہ اس حکمت عملی نے امریکہ کے اپنے مستقبل کی سکیورٹی پالیسی کو کس طرح بیان کیا ہے۔ اس میں وہ سوچ پہلی بار واضح طور پر ایک پالیسی کی شکل میں سامنے آئی ہے جو کافی عرصے سے اشاروں میں نظر آ رہی تھی۔

اس کا خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ اب دنیا کا چوہدری بننے سے دستبردار ہو رہا ہے چاہے ٹرمپ جنوب مشرقی ایشیا سے وسطی افریقہ اور مشرق وسطیٰ تک امن معاہدوں کا سہرا اپنے سر کیوں نہ باندھتے رہیں۔ اب امریکہ صرف اپنی سکیورٹی اور اپنے مغربی نصف کر ارض کو ترجیح دے گا، گویا یہ 1823 کی مونرو ڈاکٹرائن کا 21ویں صدی کا ورژن ہو۔

ٹرمپ جن امن معاہدوں کا ذکر بار بار کرتے ہیں، انہیں یوں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ امریکی’باقیات‘ کو سمیٹ کر دنیا سے ہاتھ کھینچ رہے ہیں۔ یہی وجہ شاید یوکرین کی جنگ ختم کروانے کی ان کی جلدبازی اور مشرق وسطیٰ میں باقی کام نمٹانے کی خواہش کی بھی وضاحت کرتی ہے۔ مجموعی پیغام واضح ہے اور وہ یہ کہ’ امریکہ کہہ رہا ہے، ہم جا رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس نئی پالیسی کے تحت امریکہ کی پوری توجہ اپنے ہی براعظم تک محدود ہو جائے گی، جو یہ بھی بتاتا ہے کہ ٹرمپ نے دوسری مدت کے آغاز میں گرین لینڈ اور پناما کا ذکر کیوں کیا اور اس وقت وینزویلا کیوں نشانے پر ہے۔

یہ سمجھ لینا بھی سہل نہیں کہ یہ پالیسی صرف ٹرمپ تک محدود رہے گی اور ان کے جانے کے ساتھ ختم ہو جائے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے ماضی میں بھی لاطینی امریکہ میں کئی بار مداخلت کی ہے جیسے نکاراگوا، ایل سلواڈور، چلی اور کیوبا کو ابھی بھولنا جلد بازی ہو گی۔ برطانیہ کو تو خاص طور پر یاد ہو گا کہ فاک لینڈز کی جنگ میں امریکہ کو ساتھ ملانے کے لیے کتنی جدوجہد کرنا پڑی تھی اور پھر ایک امریکی فوجی مداخلت براہ راست برطانوی ملکیت والے گرینیڈا جزیرے میں بھی ہوئی۔

لہٰذا ممکن ہے کہ امریکہ اب کسی نئی راہ پر نہیں بلکہ اپنی پرانی راہ پر واپس لوٹ رہا ہو جہاں اس کی خارجہ پالیسی کا محور صرف اپنا نصف کرہ ہے، نہ کہ پوری دنیا۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ نئی ’نیم کرہ ارض والی طاقت‘ استعمال کرنا کوئی آسان کھیل ہو گا۔ امریکہ کو ایک ابھرتے ہوئے برازیل سے کیسے نمٹنا ہو گا؟ ایک سخت موقف رکھنے والے کینیڈا کا کیا کریں گے؟ چین بحر الکاحل میں اپنے اثر و رسوخ کی کیا حد مقرر کرے گا؟

صرف ایک نصف کرہ بھی امریکیوں کو امن میں یا اگر وہ مناسب سمجھیں، جنگ میں مصروف رکھنے کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر