وائٹ ہاؤس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قومی سلامتی کی حکمت عملی سے متعلق نئی پالیسی جاری کر دی ہے۔ اس نئی حکمت عملی میں زیادہ زور امریکہ کے معاشی مفادات پر دیا گیا ہے اور تمام پالیسی ’امریکہ پہلے‘ کے بیانیے کے گرد گھومتی ہے۔
اس سٹریٹیجی میں پاکستان اور افغانستان کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی دہشت گرد تنظیم یا عالمی دہشت گردی کا ذکر موجود ہے، حالاں کہ ماضی میں امریکہ کی سکیورٹی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اور افغانستان امریکی پالیسی کا اہم حصہ رہے ہیں۔
اس بار دلچسپ بات یہ ہے کہ پوری سٹریٹیجی میں پاکستان اور افغانستان یا ’دہشت گردی‘ کے لفظ کا ایک بار بھی ذکر نہیں کیا گیا ہے، جو مبصرین کے مطابق پالیسی میں بڑی تبدیلی ہے۔ پاکستان کا ذکر ایک بار صرف اسی تناظر میں کیا گیا ہے کہ ٹرمپ نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ روک دی۔
اس کے برعکس سابق صدر جو بائیڈن کی 2022 کی سکیورٹی حکمت عملی میں افغانستان کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ امریکہ یقینی بنائے گا کہ افغانستان کی زمین امریکہ کے خلاف استعمال نہ ہو سکے۔ ماضی میں پاکستان اور افغانستان کو ملا کر ایف پیک (AFPPAK) جیسی اصلاحات بھی امریکہ نے ہی متعارف کروائی تھی۔
بائیڈن کی پالیسی میں جمہوری نظام کی ترویج، انسانی حقوق کو یقینی بنانے اور موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی دی گئی تھی، لیکن ٹرمپ کی پالیسی میں ان معاملات کا کوئی ذکر موجود نہیں۔
ٹرمپ کی سکیورٹی سٹریٹیجی پر مبصرین کی رائے منقسم ہے، کیوں کہ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان اور افغانستان کا ذکر نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ تمام ممالک کے ساتھ انفرادی طور پر تعلقات کا خواہاں ہے۔ کچھ مبصرین کی رائے میں سٹریٹیجی میں زیادہ تر بڑی معیشتوں اور طاقتوں کا ذکر ہے اور چھوٹے ممالک کا ذکر کرنا امریکہ ضروری نہیں سمجھا گیا۔
حکمت عملی میں کیا ہے؟
اس بار ٹرمپ کی سٹریٹیجی میں امریکہ کی مغربی اطراف (شمالی امریکہ، وسطی امریکہ، کیریبین خطے سمیت دیگر پڑوسی ممالک) کے ساتھ معاملات کو بہتر بنانے، سمگلنگ کی روک تھام، غیر منظم ترک وطن سمیت بارڈر سکیورٹی کو بہتر بنانے پر زور دیا گیا ہے۔
ٹرمپ کی سٹریٹیجی میں مختلف خطوں کے ساتھ تعلقات کا ذکر کیا گیا۔ چین کے ساتھ بہتر تجارتی تعلقات پر زور دیا گیا ہے، جب کہ مشرق وسطیٰ کے تیل و گیس پر کم انحصار کا ذکر ہے۔
چین کے حوالے سے سٹریٹیجی میں بتایا گیا ہے کہ تین دہائیوں سے امریکہ کے چین کے حوالے سے اس مؤقف کو ٹرمپ نے الٹا کر دیا ہے کہ چین امریکی سرمایہ کاری سے مضبوط ہو کر ورلڈ آرڈر قائم کرے گا۔ اس کے بالکل برعکس جو بائیڈن کی پالیسی میں چین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ چین پوری دنیا پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے اور بحر ہند اور بحرالکاہل کا خطہ اس مقصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
جو بائیڈن کی پالیسی میں چین کے اویغور علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا بھی ذکر کیا گیا تھا اور چین کے جمہوری نظام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
ٹرمپ کی پالیسی میں بحر ہند اور بحرالکاہل خطے کے حوالے سے ذکر موجود ہے اور اس میں بھی زیادہ زور تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے پر دیا گیا ہے، جس میں انڈیا، جاپان اور چین کا ذکر کیا گیا ہے۔
انڈیا کے بارے میں سٹریٹیجی میں لکھا ہے کہ انڈیا کے ساتھ تجارتی تعلقات بہتر بنائیں گے تاکہ آسٹریلیا، جاپان اور امریکہ کے ساتھ مل کر بحر ہند اور بحرالکاہل کی سکیورٹی بہتر بنائی جا سکے۔ ٹرمپ کی پالیسی میں ایک اور اہم نکتے پر بات کی گئی ہے کہ امریکہ مزید کسی ملک کے اندرونی حکومتی نظام، کلچر یا دیگر عوامل میں دخل اندازی نہیں کرے گا، کیوں کہ تمام اقوام کو اپنی مرضی پر رہنے کا حق حاصل ہے۔
پالیسی میں کہا گیا ہے کہ سرد جنگ کے بعد امریکہ نے ہمیشہ یہ غلطی کی کہ امریکی مفاد کے بغیر ورلڈ آرڈر بنانے پر زور دیا گیا، لیکن اب ایسا نہیں ہوگا۔ اتحادیوں اور شراکت دار ممالک کے حوالے سے ٹرمپ کی پالیسی میں لکھا گیا ہے کہ اب ورلڈ آرڈر کی ذمہ داری امریکہ کی نہیں، بلکہ مجموعی طور پر اتحادیوں کی ہوگی کہ وہ اپنے آپ کو دفاع کے میدان میں مضبوط کریں۔
امریکہ اور پاکستان ایک دوسرے کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دہائیوں سے مضبوط اتحادی سمجھتے رہے ہیں اور افغانستان میں 2001 کے بعد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان نے امریکہ کی بھرپور حمایت کی تھی۔ اتحادیوں کے بارے میں ٹرمپ نے پالیسی میں بتایا ہے کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے اتحادیوں کے لیے امریکہ پہلا انتخاب ہو۔‘
مبصرین کیا کہتے ہیں؟
لاہور میں مقیم بین الاقوامی امور کے ماہر اور منہاج یونیورسٹی کے پروفیسر محمد فیاض سمجھتے ہیں کہ نئی پالیسی کا جھکاؤ زیادہ تر تجارت اور معیشت کی طرف ہے، جب کہ بحر ہند یا بحرالکاہل خطے میں انڈیا کا ذکر کیا گیا، لیکن وہ بھی زیادہ تر معیشت کے حوالے سے ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ پہلے اس خطے میں سکیورٹی یا چین کے خلاف انڈیا کی طرف امریکہ کا جھکاؤ زیادہ تھا، لیکن اب وہ انفرادی طور پر ہر ملک کے ساتھ تعلقات رکھنا چاہتا ہے اور خطے میں کسی ایک طاقت پر انحصار نہیں رکھنا چاہتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پروفیسر محمد فیاض کے مطابق حکمت عملی میں بحر ہند اور بحرالکاہل کے خطے میں چین اور تائیوان تنازعے کا صرف ذکر کیا گیا ہے۔ امریکہ چین کو معاشی طور پر اپنے قریب رکھنا اور جنوبی چین کے بحری راستوں کو کھلا رکھنا چاہتا ہے تاکہ تجارت میں رکاوٹ نہ آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی ہمیشہ یہ پالیسی رہی ہے کہ فوجی اتحادوں اور مختلف خطوں میں فوجی طاقت کو برقرار رکھا جائے، لیکن نئی سٹریٹیجی میں ایسا کوئی ذکر نہیں کیا گیا، تاہم یہ ضرور بتایا گیا ہے کہ امریکہ اپنی ’سافٹ طاقت‘ برقرار رکھے گا۔
دہشت گردی کے خطرے اور فوجی اتحادوں کے حوالے سے پروفیسر محمد فیاض نے بتایا کہ پالیسی میں ان ترجیحات کو اب شامل نہیں کیا گیا، جب کہ فوجی اتحادوں کا بھی ذکر نہیں کیا گیا اور زیادہ تر معاشی استحکام پر بات کی گئی ہے۔
پروفیسر محمد فیاض کے بقول: ’پاکستان اور امریکہ کا ابھی ایک دفاعی معاہدہ بھی ہوا ہے، لیکن بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ اب فوجی اتحادوں کی طرف رجحان کم ہو گیا ہے، جب کہ انڈیا کو بھی اب فوجی سٹریٹیجی کا حصہ نہیں بنایا گیا۔‘
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے پروفیسر اور دفاعی امور کے ماہر ڈاکٹر عرفان اشرف کی رائے میں انڈیا بدستور امریکہ کا اس خطے میں مضبوط اتحادی رہے گا۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ امریکہ کی نظریں اب اپنے مغرب، یعنی کینیڈا یا میکسیکو پر ہیں جہاں سب سے بڑا مسئلہ منشیات کی سمگلنگ کا ہے، تاہم سٹریٹجک معاملات میں امریکہ انڈیا کو زیادہ کمزور نہیں رکھنا چاہتا۔
انہوں نے کہا: ’ٹرمپ اور مودی میں اختلافات ضرور ہوں گے، لیکن امریکہ اس خطے میں سٹریٹجک معاملات کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کر سکتا اور ہمیشہ انڈیا ان کی پالیسی کا حصہ رہے گا۔‘
پالیسی میں پاکستان اور افغانستان کا ذکر نہ کرنے کے معاملے پر عرفان اشرف نے کہا کہ بعض ممالک ایسے ہیں جن کا ذکر امریکہ ضروری نہیں سمجھتا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’امریکہ زیادہ تر بڑی معیشتوں کو اپنی پالیسی کا حصہ بناتا ہے اور ان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے میں سنجیدہ ہوتا ہے۔‘
لندن میں مقیم افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے ماہر حمید شجاع کے مطابق امریکہ کی حالیہ افغان پالیسی دراصل وہی سمت ہے جو گذشتہ چار سال سے دکھائی دے رہی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اب طالبان کے ساتھ جنگ میں نہیں ہے تاہم دوحہ معاہدے کے تحت اس نے افغان طالبان سے یہ ضمانت ضرور لی ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔
حمید شجاع کے مطابق: ‘امریکہ اب طالبان کے ساتھ تعلقات چاہتا ہے اور موجودہ حالات میں افغانستان، امریکہ کے لیے کسی خطرے کی حیثیت نہیں رکھتا۔‘
انہوں نے کہا کہ افغانستان کے حوالے سے امریکہ کی ماضی کی پالیسی زیادہ تر یکساں رہی ہے۔ ماضی میں افغان جنگ کے دوران پاکستان نے امریکہ کی کھل کر حمایت کی، یہاں تک کہ اسے سپلائی روٹ بھی فراہم کیے۔
تاہم شجاع کے مطابق: ‘اب امریکہ کو اس کردار کی ضرورت نہیں رہی، اسی لیے نئی حکمت عملی میں پاکستان کا ذکر بھی شامل نہیں۔ دوسری طرف امریکہ اور پاکستان کے تعلقات اس وقت نسبتاً بہتر ہیں لیکن پاکستانی طالبان ایک اہم عنصر ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان چاہتا ہے کہ امریکہ افغان طالبان پر دباؤ ڈالے۔‘