نائب امریکی تجارتی نمائندے رک سوئٹزر اور انڈیا سے معاہدے کے مرکزی مذاکرات کار برینڈن لنچ کی قیادت میں ٹیم آج سے شروع ہونے والے دو روزہ مذاکرات کے لیے انڈیا پہنچنے والی ہے۔
اس پیش رفت نے ایک طویل عرصے سے زیر التوا تجارتی معاہدے کے مکمل ہونے کی امیدیں ایک بار پھر روشن کر دی ہیں، جس کی عدم موجودگی کے باعث انڈیا پر بھاری ٹیرف لگائے گئے اور امریکہ پر ایک اہم سٹریٹجک پارٹنر اور چین کے مقابلے میں توازن رکھنے والے اتحادی کو دور کرنے کا الزام لگا۔
یہ اعلیٰ سطح کی ملاقات اس لیے بھی خاص اہمیت رکھتی ہے کہ تجارتی معاہدے سے متعلق غیر یقینی صورت حال نے انڈیا میں سرمایہ کاری اور برآمدات کو متاثر کرنا شروع کر دیا ہے، جبکہ حریف ممالک کو کم شرح ٹیرف کی پیشکش کی جا رہی ہے۔
تاہم مہینوں کی کشمکش کے بعد تجارتی معاہدے کا امکان اب زیادہ ہے، کم از کم نئی دہلی کی نظر میں، کیونکہ فروری میں مذاکرات کے آغاز کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی حالات بدل چکے ہیں۔
انڈیا کے سیکریٹری تجارت راجیش اگروال نے اس حوالے سے کہا کہ ’کچھ وقت کی ہی بات ہے‘ کہ اس معاہدے پر فیصلہ ہو جائے۔
امریکہ کے ساتھ سکڑتے تجارتی سرپلس اور انڈیا کے سب سے بڑے تجارتی پارٹنر کی جانب سے 50 فیصد کے بھاری ٹیرف کے پیشِ نظر انڈیا نے اپنی حکمتِ عملی تبدیل کی ہے۔ انڈیا نے امریکہ سے توانائی کی خریداری بڑھا دی ہے اور بلند ٹیرف کے اثرات کم کرنے کے لیے تجارت میں تنوع کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔
بدھ سے شروع ہونے والی بات چیت سے قبل صورت حال کچھ یوں ہے۔
امریکہ کے ساتھ انڈیا کا تجارتی سرپلس کم ہوا
انڈیا اور امریکہ کے درمیان سامان کے بڑے تجارتی خسارے کا معاملہ ان نمایاں نکات میں شامل تھا، جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سال کے آغاز میں منصب سنبھالنے سے پہلے ہی اٹھائے تھے، لیکن تازہ ترین اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ نئی دہلی نے امریکہ سے درآمدات میں اضافہ کیا ہے جس سے تجارتی فرق کم ہوا ہے۔
وزارتِ تجارت و صنعت کے مطابق اکتوبر میں امریکہ کے ساتھ انڈیا کا سرپلس 3.17 ارب ڈالر سے گھٹ کر 1.45 ارب ڈالر رہ گیا۔
اگرچہ 27 اگست کے بعد، جب 50 فیصد ٹیرف نافذ ہوا، امریکی منڈیوں کو برآمدات میں تیزی سے کمی آئی ہے، لیکن انڈیا نے امریکہ سے درآمدات بڑھا دی ہیں۔ اگست میں امریکہ کو انڈیا کی برآمدات 6.86 ارب ڈالر تھیں جو اکتوبر میں 6.30 ارب رہ گئیں جبکہ درآمدات 3.6 ارب ڈالر سے بڑھ کر 4.84 ارب ڈالر ہو گئیں۔ یہ کمی زیادہ تر محنت طلب شعبوں جیسے ملبوسات، جوتے اور کھیلوں کے سامان میں دیکھی گئی۔
امریکی خام تیل کی درآمدات میں اضافہ جبکہ روس کمزور
اضافی 25 فیصد ٹیرف دونوں ملکوں کے درمیان سب سے زیادہ سیاسی نوعیت کے تنازع میں شامل ہیں اور اسی وجہ سے تجارتی معاہدہ رک گیا۔ 27 اگست کو اضافی ٹیرف کے نفاذ نے مذاکرات کو پٹری سے اتار دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم دونوں ملک ایک اتفاق رائے تک پہنچ سکتے ہیں کیونکہ انڈیا نے امریکہ سے خام تیل کی درآمدات میں بتدریج اضافہ کیا ہے اور واشنگٹن کی جانب سے روسی تیل کمپنیوں لوک آئل (Lukoil) اور روس نیفٹ (Rosneft) پر پابندیوں کے باعث انڈیا کے لیے روسی تیل کی رسد میں کمی آئی ہے۔
تجارتی اعداد و شمار کے مطابق انڈیا کی تیل درآمدات میں امریکہ کا حصہ رواں سال اپریل تا اکتوبر کے دوران بڑھ کر 7.48 فیصد ہو گیا ہے، جو گذشتہ سال اسی عرصے میں 4.43 فیصد تھا۔ اس کے برعکس روس کا حصہ 37.88 فیصد سے کم ہو کر 32.18 فیصد رہ گیا۔
انڈیا۔امریکہ ایل پی جی معاہدہ اور جوہری اصلاحات
اضافی ٹیرف میں کم از کم کمی کا امکان اس وجہ سے بھی بڑھ گیا ہے کہ انڈیا کی سرکاری ریفائنری کمپنیوں نے گذشتہ ماہ امریکی ایل پی جی درآمد کرنے کے لیے ایک سالہ معاہدہ کیا ہے۔ خام تیل کی درآمدات پہلے ہی تقریباً 10 فیصد کے قریب پہنچ چکی ہیں جبکہ ایل پی جی درآمدات بھی تقریباً اسی کے قریب پہنچ جائیں گی۔
ٹرمپ حکومت کی جانب سے جوہری توانائی کے توسیعی منصوبوں اور چھوٹے ری ایکٹرز پر زور کے تناظر میں انڈیا نے بھی اس تجارتی معاہدے کے تحت امریکہ کے ساتھ تعاون میں مزید آمادگی کا اشارہ دیا ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی نے گذشتہ ماہ کہا کہ حکومت انڈیا کے سخت ضابطہ شدہ جوہری توانائی کے شعبے کو نجی سرمایہ کاری کے لیے کھولنے کی تیاری کر رہی ہے۔
سرمایہ کاری اور روپے پر دباؤ
ستمبر اور اکتوبر میں مسلسل برآمدات میں کمی کے علاوہ انڈیا کو غیر یقینی سرمایہ کاری کی صورت حال کا سامنا ہے، کیونکہ حریف ممالک کم ٹیرف کی بدولت فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
رپورٹ کہتی ہے کہ شرحِ مبادلہ میں کمزوری، جس میں گذشتہ سال تقریباً 7 فیصد کمی ہوئی اور دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں نمایاں گراوٹ نے حقیقی شرح مبادلہ میں 9 فیصد سے زیادہ کمی پیدا کی ہے اور یہ صورت حال اگر برقرار رہی تو انڈیا کے معاشی اشاریوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
حکومت کی تیز اصلاحات اور تجارت میں تنوع
تجارتی معاہدے سے متعلق غیر یقینی صورت حال کے باعث سرمائے کے انخلا نے انڈیا کی صنعتی حکمتِ عملی پر بھی نظرثانی کو جنم دیا ہے۔ حکومت نے مائیکرو، سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز کی مسابقت پر اثر انداز ہونے والے کئی کوالٹی کنٹرول آرڈرز واپس لے لیے ہیں، کپاس پر 11 فیصد ڈیوٹی ختم کی ہے اور متعدد مزدور قوانین کو نافذ کیا ہے۔
ساتھ ہی انڈیا نے یورپی یونین جیسی بڑی منڈیوں کے ساتھ تجارتی مذاکرات میں تیزی لائی ہے۔ نئی دہلی نے نیوزی لینڈ، اسرائیل، چلی اور پیرو کے ساتھ بھی بات چیت شروع کر دی ہے۔ اسی سال انڈیا نے روس کی قیادت میں یوریشن اکنامک یونین کے ساتھ تجارتی معاہدے کے لیے مذاکرات بھی شروع کیے ہیں۔
