امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انڈیا کے لیے نامزد کردہ ایلچی سرجیو گور نے کہا ہے کہ واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان تجارتی محصولات پر پیدا ہونے والا تنازع آئندہ چند ہفتوں میں حل ہو سکتا ہے۔
سرجیو گور نے جمعرات کو واشنگٹن میں سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی میں اپنی توثیق کی سماعت کے دوران کہا کہ وہ انڈیا کے وزیر تجارت کے آئندہ ہفتے واشنگٹن کے دورے کے موقع پر پیش رفت کی توقع رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’میرا خیال ہے کہ یہ معاملہ اگلے چند ہفتوں میں حل ہو جائے گا۔‘
یہ تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا جب ٹرمپ نے روس سے تیل کی خریداری پر انڈیا کی کچھ برآمدات پر 50 فیصد تک محصولات عائد کر دیے۔ اس فیصلے کے بعد انڈیا میں امریکہ مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔
38 سالہ گور، جو ٹرمپ کے پرانے فنڈ ریزر رہ چکے ہیں اور حالیہ دنوں میں وائٹ ہاؤس میں تیزی سے ابھرے ہیں، نے کہا کہ انڈیا کے ساتھ تعلقات امریکی ترجیحات میں شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنے دوستوں کے لیے الگ معیار رکھتے ہیں اور میں اسے اپنی اولین ترجیح بناؤں گا کہ انڈیا ہمارے قریب رہے، دور نہ ہو۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سرجیو گور نے مزید کہا کہ صدر ٹرمپ نے اگرچہ کئی عالمی رہنماؤں پر تنقید کی ہے لیکن انہوں نے کبھی براہِ راست انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید نہیں کی۔ ان کے مطابق ’جب صدر انڈیا پر تنقید کرتے بھی ہیں تو وہ مودی کی تعریف ضرور کرتے ہیں۔‘
ٹرمپ انتظامیہ نے الزام لگایا ہے کہ انڈیا روس سے تیل خرید کر یوکرین پر حملے میں ماسکو کی مدد کر رہا ہے۔ ٹرمپ کے مشیر تجارت پیٹر ناوارو نے تو یہاں تک کہا کہ یہ ’مودی کی جنگ‘ ہے۔
اگرچہ ٹرمپ نے روس کے خلاف براہِ راست ایسی کوئی سخت کارروائی نہیں کی، لیکن وہ اس بات پر بھی ناخوش نظر آئے کہ مئی میں پاکستان کے ساتھ تنازع کے بعد جنگ بندی کا کریڈٹ مودی نے ذاتی طور پر انہیں نہیں دیا۔
امریکہ کے بیشتر سیاست دان انڈیا کے ساتھ قریبی تعلقات کے حامی ہیں اور اسے چین کے مقابلے میں ایک متوازن طاقت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ڈیموکریٹ سینیٹر ٹم کین نے گور کو کہا: ’امریکہ کو انڈیا کے ساتھ سختی بھی کرنی چاہیے جہاں ضرورت ہو، لیکن ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ ہمیں انڈیا کے قریب رہنا ہے اور انہیں غلط سمت میں نہیں دھکیلنا۔‘
امریکی وزیر تجارت ہاورڈ لٹ نِک نے بھی جمعرات کو بیان دیا ہے کہ انڈیا کو اپنی مارکیٹ کھولنی ہو گی اور روسی تیل خریدنا بند کرنا ہوگا۔