’اگر دس لوگ دکان پر آتے ہیں تو صرف ایک ہی سونا خریدتا ہے، باقی سب نقلی زیورات کی طرف رجوع کرتے ہیں۔‘ یہ کہنا ہے ممبئی کے جوہری بازار کے پرانے سنار شیو یادو کا۔
یادو تین دہائیوں سے زیادہ وقت سے سونے کے کاروبار میں ہیں لیکن ان کے مطابق اتنی بڑی تبدیلی انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ ان کے نزدیک یہ محض خریداروں کی پسند کا بدلنا نہیں بلکہ ایک بڑی عالمی پالیسی کا نتیجہ ہے۔
جب امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ نے سونے سمیت مختلف درآمدی اشیاء پر ٹیرف بڑھایا تو اس کے اثرات براہِ راست انڈین مارکیٹ پر مرتب ہوئے۔ انڈیا دنیا میں سونے کا دوسرا سب سے بڑا صارف ہے مگر اپنی ضرورت کا صرف ایک ٹن پیدا کرتا ہے، باقی سب درآمد کیا جاتا ہے۔ اس لیے درآمدی محصولات بڑھتے ہی قیمتوں میں ایسا اضافہ ہوا جس نے عام خریدار کو دکانوں سے دور کر دیا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے یادو نے بتایا کہ خریدار اب سونا خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
’ایک عام سروس ورکر کیسے سونا خرید سکتا ہے؟ قیمتیں ہر روز بڑھ رہی ہیں۔ لوگ اگر اصلی زیور نہیں خرید سکتے تو کم از کم نقلی زیورات پہن کر تقریبات میں خود کو خوش نما دکھانا چاہتے ہیں۔‘
یہ رجحان صرف ممبئی تک محدود نہیں۔ پورے انڈیا میں متوسط طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہے۔ سونل شرما، جو مقامی خریدار ہیں، انڈپینڈنٹ اردو سے کہتی ہیں کہ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ سونا ان کی پہنچ سے باہر ہو جائے گا۔
’پہلے اگر کوئی خاندان بیٹی کی شادی کے لیے پانچ تولہ سونا خرید سکتا تھا تو اب اسی قیمت میں وہ آدھا بھی نہیں خرید پاتا۔ ہم جیسے متوسط گھرانوں کے لیے یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔ سونا ہمارے لیے صرف زیور نہیں تھا بلکہ سرمایہ کاری بھی تھا، مگر اب وہ سہولت ہم سے چھن گئی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈیا میں سونا ہمیشہ سے محض ایک دھات نہیں بلکہ ایک روایت اور سرمایہ کاری کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے۔ شادیاں ہوں یا مذہبی تقریبات، سونا ہر تقریب کا حصہ ہوتا ہے۔
بہت سے خاندان اپنی بچت کو محفوظ رکھنے کے لیے بھی سونے کا انتخاب کرتے ہیں۔ لیکن بڑھتی قیمتوں نے اس روایت کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔
یادو جیسے کئی سنار اب کھلے عام مانتے ہیں کہ ان کا کاروبار سونے سے زیادہ مصنوعی زیورات پر منتقل ہو چکا ہے۔
’آج مارکیٹ کا 90 فیصد حصہ امیٹیشن جیولری پر آ گیا ہے۔ صرف دس فیصد دکانیں ہی اصلی سونے کا سودا کر رہی ہیں۔ لوگ رنگ اور ڈیزائن کے حساب سے مصنوعی زیورات خریدتے ہیں اور ہم ان کی پسند کے مطابق انہیں اپنی مرضی سے تیار بھی کر دیتے ہیں۔‘
ممبئی کا جوہری بازار، جو ایک وقت میں سونے، چاندی اور ہیروں کے سودوں کے لیے مشہور تھا، اب مصنوعی زیورات کی مارکیٹ بن چکا ہے۔ چھوٹی دکانوں سے لے کر بڑی شو رومز تک سب نے اپنا رخ بدل لیا ہے۔ بیچنے والے کہتے ہیں کہ اگر وہ اب بھی سونے پر انحصار کریں تو کاروبار بند کرنے کی نوبت آ جائے۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ تبدیلی محض معاشرتی رجحان کی بنیاد پر نہیں بلکہ عالمی تجارتی سیاست کے دباؤ کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔
امریکہ کی طرف سے لگنے والے ٹیرف نے سونے کو مہنگا کر کے انڈین صارف کو مجبور کر دیا کہ وہ متبادل تلاش کرے۔ اس متبادل نے نقلی زیورات کو ایک نئی زندگی بخشی ہے، اور اب یہ صرف کم آمدنی والے طبقے تک محدود نہیں رہے بلکہ امیر گھرانے بھی ان کا انتخاب کر رہے ہیں۔
سونل شرما کہتی ہیں کہ وہ جانتی ہیں یہ زیورات قیمتی نہیں لیکن انہیں پہننے کا موقع کم از کم ایک احساس ضرور دیتا ہے۔ ’تقریبات میں لوگ اب بھی چاہتے ہیں کہ اچھے لگیں۔ اگر اصلی زیور نہیں خرید سکتے تو نقلی زیورات ہی پہن لیں۔ یہ ہماری مجبوری ہے، لیکن یہی حقیقت ہے۔‘
یہ رجحان مستقبل میں انڈین معیشت اور ثقافت دونوں پر اثر ڈال سکتا ہے۔ جہاں ایک طرف سنار اپنے بچوں کو سونے کے روایتی کاروبار میں لانے سے ہچکچا رہے ہیں، وہیں دوسری طرف مصنوعی زیورات کی مانگ نئی صنعت کو فروغ دے رہی ہے۔ انڈیانہ صرف اپنے اندرونی بازار کو اس سے بھر رہا ہے بلکہ یہ زیورات دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی برآمد کیے جا رہے ہیں۔
انڈیاکی کہانی دراصل اس بڑی حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ عالمی تجارتی پالیسیوں کے اثرات کتنے گہرے ہو سکتے ہیں۔ جو دھات صدیوں سے روایت، سرمایہ کاری اور تحفظ کی علامت سمجھی جاتی تھی، وہ آج عام لوگوں کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہے۔ اور اس خلا کو پُر کرنے کے لیے جو جگہ بن رہی ہے، وہ مصنوعی زیورات کی ہے۔