حکومت پاکستان نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ ناروے کے سفیر پیر البرٹ الساس کو ملک کے ’اندرونی معاملات میں مداخلت‘ پر ڈیمارش جاری کیا گیا ہے۔
الساس نے آج سپریم کورٹ میں ایڈوکیٹ ایمان مزاری اور ان کے شوہر ہادی چھٹہ کے خلاف متنازع ٹوئٹس کے ایک کیس کی سماعت میں شرکت کی تھی۔
انہوں نے وہاں موجود صحافیوں سے ملاقات میں بتایا کہ وہ سماعت کا ’صرف مشاہدہ کرنے آئے ہیں۔‘
دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ الساس کو آج شام دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاجی مراسلہ ان کے حوالے کیا گیا۔
بیان کے مطابق ’11 نومبر، 2025 کو ناروے کے سفیر کی سپریم کورٹ میں ایمان مزاری کیس کی سماعت میں شرکت نہ صرف سفارتی حد سے تجاوز تھا بلکہ پاکستان کے اندرونی عدالتی معاملات میں براہ راست مداخلت بھی تھی۔
’یہ اقدام ویانا کنونشن 1961 کے آرٹیکل 41 کی کھلی خلاف ورزی ہے، جو سفارت کاروں کو میزبان ملک کے قوانین کا احترام کرنے اور اس کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کا پابند کرتا ہے۔‘
مراسلے میں مزید کہا گیا ’کسی بھی ملک کا سفیر اس نوعیت کے حساس اور زیر سماعت مقدمے میں موجود ہو کر عدالتی عمل کو متاثر کرنے یا اس پر اثرانداز ہونے کا تاثر دے تو یہ سفارتی ذمہ داریوں اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی تصور ہوتی ہے۔
’یہ پہلا واقعہ نہیں۔ شواہد بتاتے ہیں کہ ناروے کی مختلف این جی اوز، خصوصاً وہ تنظیمیں جو انسانی حقوق کے نام پر سرگرم ہیں، پاکستان میں ایسے عناصر کی حمایت اور انہیں پلیٹ فارم فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ حمایت کرتی ہیں جو پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔‘
دفتر خارجہ نے واضح کیا کہ ’پاکستان اپنے اندرونی معاملات میں کسی بھی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کرے گا۔‘
ایمان مزاری اور ان کے شوہر کے خلاف ملکی اداروں کے خلاف متنازع ٹویٹس سے متعلق ایک کیس ضلعی عدالت میں زیر سماعت ہے۔
ایمان اور ہادی نے ٹرائل میں شفافیت نہ ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور موقف اختیار کیا کہ ٹرائل کورٹ مبینہ طور پر ان کا موقف سنے بغیر کیس تیزی سے آگے بڑھا رہا ہے تاکہ جلد سزا ہو، اس لیے ٹرائل کورٹ کو کارروائی سے روکا جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم امتناع دیے بغیر کیس 16 دسمبر تک ملتوی کر دیا جس پر دونوں نے اب سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ اپیل کے فیصلے تک ٹرائل کورٹ کو مزید کارروائی سے روکتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ ایمان مزاری اور ہادی چٹھہ کی درخواستوں پر جلد فیصلہ کرے۔
جوڑے کے وکیل ریاست علی آزاد نے کہا کہ ان کے مؤکلین نے سپریم کورٹ میں اس لیے درخواست دائر کی کیونکہ نچلی عدلیہ نے ’غیر مناسب طریقے سے مقدمہ آگے بڑھایا۔‘
آزاد نے کہا کہ پاکستان کے کوڈ آف کرمنل پروسیجر کے تحت’لازمی ہے کہ گواہی ملزمان کی موجودگی میں ریکارڈ کی جائے اور اس اصول کی صریحاً خلاف ورزی ہوئی۔
’لیکن اسی دن، چار گواہوں کی گواہی اُن کی غیر موجودگی میں ریکارڈ کی گئی، اور ان کی جانب سے کراس-ایگزامنیشن کرنے کے لیے ایک سٹیٹ کونسل مقرر کیا گیا۔
’یہ تمام باتیں آرٹیکل 10 اور 10-A کے تحت منصفانہ مقدمے کے حق کے خلاف ہیں۔‘
مقدمے کی سماعت 15 دسمبر کو دوبارہ شروع ہونا تھی، لیکن سپریم کورٹ کے سٹے کے بعد ایڈیشنل سیشن جج اور خصوصی PECA عدالت دونوں کے سامنے کارروائیاں معطل ہو گئی ہیں۔
