بدھ کو اسلام آباد میں امریکی ناظم الامور نیٹلی بیکر نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں خبر دی کہ امریکہ کا ایکسپورٹ امپورٹ بینک (ایکسم) ریکوڈک پروجیکٹ میں ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ آنے والے برسوں میں کان کنی کے آلات اور خدمات کی مد میں یہ سرمایہ کاری بڑھ کر دو ارب ڈالر ہو جائے گی جس سے چھ ہزار امریکیوں اور ساڑھے سات ہزار پاکستانیوں کو روزگار ملے گا۔
ایکسم امریکہ کا سرکاری بینک ہے جس کا بنیادی مقصد امریکی مصنوعات اور خدمات کی دوسرے ممالک کو فروخت میں مدد کرنا ہے۔ یہ بینک صرف ان سودوں میں مدد کرتا ہے جہاں نجی بینک سیاسی یا تجارتی خطرات کی وجہ سے قرض دینے سے انکار کر دیتے ہیں یا قاصر ہوتے ہیں۔
نیٹلی بیکر کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ دنیا بھر میں سٹریٹیجک معدنیات کے حصول کے لیے چین کے مقابلے پر صف آرا ہے۔
امریکہ ہر سال آٹھ ہزار ٹن سٹریٹیجک معدنیات درآمد کرتا ہے جن کا 70 فیصد حصہ چین سے آتا ہے۔ امریکہ کو اسی بات کی تشویش ہے کہ اگر چین اپنی سپلائی روک دے تو اس کی ہائی ٹیک امریکی صنعت بحران کا شکار ہو جائے گی۔
تانبہ نایاب معدنیات کے زمرے میں نہیں آتا، تاہم اس دھات کی جدید ٹیکنالوجی میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتی ہے، خاص طور پر الیکٹرک گاڑیوں اور سولر پینلز میں۔ اسی طرح سونا ایڈوانسڈ کمپیوٹر سسٹمز، ایرو سپیس اور دوسری ہائی ٹیک انڈسٹری میں استعمال ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے قبل ستمبر میں پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی جس میں اخباری رپورٹوں کے مطابق پاکستانی نایاب معدنیات کے نمونے بھی پیش کیے گئے تھے۔
پاکستانی حکام بارہا دعویٰ کر چکے ہیں کہ پاکستان کے پاس 60 کھرب ڈالر کی نایاب معدنیات موجود ہیں۔
ریکوڈک بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع کان ہے جس کا شمار دنیا میں تانبے اور سونے کی بڑی کانوں میں ہوتا ہے۔
ریکوڈک منصوبے میں کان کنی کے حقوق بیرک گولڈ کمپنی کے پاس ہیں۔ اس کمپنی کا صدر دفتر کینیڈا کے شہر اونٹاریو میں واقع ہے اور یہ دنیا بھر میں تانبے اور سونے کی کان کنی میں مہارت رکھتی ہے۔ 2024 میں اس نے دنیا کے مختلف حصوں سے تقریباً 40 لاکھ اونس سونا نکالا تھا۔
اس برس کے آغاز میں بیرک گولڈ کے مشترک سی ای او مارک برسٹو نے کہا تھا کہ ریکوڈک کان سے اگلے37 برس میں74 ارب ڈالر کا نقد سرمایہ پیدا ہو گا۔
بیرک گولڈ ریکوڈک کان میں50 فیصد حصے کی مالک ہے جب کہ 25 فیصد پاکستان کی وفاقی حکومت اور بقیہ 25 فیصد بلوچستان کی صوبائی حکومت کے پاس ہے۔
ریکوڈک کا منصوبہ دہائیوں پرانا ہے مگر اس دوران قانونی تنازعات اور سکیورٹی خدشات کی بنا پر اس پر باقاعدہ کام شروع نہیں ہو سکا۔ عسکریت پسندوں نے بلوچستان میں انفراسٹرکچر کے منصوبوں کو بارہا نشانہ بنایا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں غیر ملکی سرمایہ کار پیسہ لگانے سے گریز کرتے رہے ہیں۔
امریکہ کے علاوہ سعودی عرب بھی ریکوڈک منصوبے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ رواں برس جون میں فنانشل ٹائمز نے خبر دی تھی کہ سعودی فرم منارہ منرلز پاکستانی کی وفاقی حکومت کے حصے میں سے 10 سے20 فیصد حصص خریدنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
ریکوڈک منصوبے کا ایک اور بڑا مسئلہ اس علاقے میں انفرا سٹرکچر کے عدم دستیابی ہے۔ یہ کان گوادر سے آٹھ سو کلومیٹر اور کراچی سے تقریباً 13 سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جہاں تک رسائی دشوار گزار علاقے کے باعث بےحد مشکل ہے۔
تاہم ستمبر میں وزیر برائے ریلوے حنیف عباسی نے کہا تھا کہ چین نے ایشیائی ترقیاتی بینک کے کراچی سے روہڑی تک ریلوے لائن کو اپ گریڈ کرنے کے دو ارب ڈالر کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔ اس سے ریکوڈک کی مصنوعات کو کراچی پہنچانے میں آسانی ہو گی۔
چین ریکوڈک کان میں براہِ راست شراکت دار نہیں مگر چاغی ضلعے ہی میں واقع تانبے کی ایک اور کان سینڈک میں چینی کمپنی ایم سی سی کھدائی کر رہی ہے۔ ماضی میں یہی چینی کمپنی ریکوڈک میں بھی دلچسپی رکھتی تھی مگر یہ بیرک گولڈ کے پاس چلا گیا۔
چین دنیا بھر میں پیدا ہونے والا 54 فیصد تانبہ استعمال کرتا ہے۔
