1965 کی جنگ سے معرکۂ حق تک: انڈیا پاکستان کو کبھی سرپرائز نہیں دے سکا

1965 کی جنگ اتنی اہم تھی کہ اسے بعد میں ویت نام اور عرب اسرائیل جنگ میں بھی عالمی قوتوں نے غور سے سٹڈی کیا۔

ایک معروف ماہرِ دفاع نے کہا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کی فوجی صلاحیتوں میں شروع دن سے عدم توازن موجود رہا ہے، جو 1965 کی جنگ میں بھی نمایاں طور پر سامنے آیا، تاہم پاکستان نے ہمیشہ بہتر حکمتِ عملی، تربیت اور عوامی حمایت کے ذریعے اس فرق کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔

1965 کی پاکستان انڈیا جنگ کے 60 سال مکمل ہونے کے موقعے پر سید محمد علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 1965 کی جنگ کے دوران انڈیا نے زیادہ تر سوویت اسلحے پر انحصار کیا، جبکہ پاکستان کو امریکی اور برطانوی ہتھیار ملے اور مغربی دنیا کے ساتھ مشقوں کا موقع ملا، اس لیے اس کی حکمتِ عملی اور سوچ پر مغربی اثرات نظر آتے ہیں۔ جبکہ انڈین افواج زیادہ تر سوویت اسلحہ اور سوویت طرزِ ٹریننگ پر انحصار کرتی رہیں۔ اس فرق نے دونوں افواج کی سوچ اور تیاری پر گہرا اثر ڈالا۔‘

1965 اور 2025 میں دونوں ملکوں کی دفاعی صلاحیتوں کا موازنہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک حقیقت یہ ہے کہ مالی وسائل اور فوجی حجم کے لحاظ سے دونوں ملکوں میں فرق بڑھتا گیا ہے۔ شروع میں یہ تناسب تین کے مقابلے میں ایک تھا، جو آج بڑھ کر نو کے مقابلے میں ایک ہو چکا ہے۔ پاکستان نے مقدار کی اس کمی کو معیار کے ذریعے پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔‘

’اس جنگ نے پاکستان کو یہ سبق دیا کہ ہمیشہ معاشی اور عددی اعتبار سے کم وسائل میں انڈین جارحیت کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ اسی لیے پاک فوج کا ریڈینس لیول ہمیشہ زیادہ رہا۔ انڈیا کبھی بھی ’سرپرائز‘ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ یہی چیز پاک فوج کی ایک مستقل عسکری قدر بن گئی۔‘

چھ سو کے مقابلے پر ڈیڑھ سو جہاز

سید محمد علی نے بتایا کہ 1965  کی جنگ میں پاکستانی فضائیہ نے تعداد میں بڑی انڈین فضائیہ کا موثر مقابلہ کیا۔ ’انڈیا کے پاس پانچ سے چھ سو جہاز تھے جبکہ پاکستان کے پاس صرف ڈیڑھ سو۔ لیکن بہتر ہتھیاروں، زیادہ ٹریننگ اور جارحانہ حکمتِ عملی نے یہ کمی پوری کی۔ پاکستانی ہواباز روزانہ پانچ سے چھ مشنز اڑاتے تھے، جبکہ انڈین پائلٹ عموماً دو۔ پاکستان نے پہلی بار ایئر ٹو ایئر میزائل استعمال کیے، جو انڈیا کے پاس نہیں تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ یہ جنگ اتنی اہم تھی کہ اسے بعد میں ویت نام اور عرب-اسرائیل جنگ میں بھی عالمی قوتوں نے غور سے سٹڈی کیا۔

سید محمد علی نے کہا کہ اس جنگ نے پاکستان کو کئی اہم اسباق دیے:

انڈیا کی جارحیت کا مقابلہ ہمیشہ کم وسائل کے ساتھ کرنا ہو گا۔

فوج کو ہر وقت تیار رہنا چاہیے تاکہ دشمن سرپرائز نہ دے سکے۔

انٹیلی جنس صلاحیت بہتر بنانا ناگزیر ہے۔

عوامی حمایت اور میڈیا کا کردار فوجی کامیابی کے لیے بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔

جنگِ مئی 2025، 1965 کے تناظر میں

محمد علی نے بتایا کہ ’2025 میں بھی کئی بنیادی چیزیں وہی ہیں جو 1965 میں تھیں۔ پاکستان کی افواج نے بری، بحری اور فضائیہ کے درمیان مربوط آپریشنز کو بہتر بنایا ہے، جس کی مثال ’بنیان المرصوص‘ آپریشن ہے، جسے عالمی دفاعی اداروں نے بطور کیس سٹڈی دیکھا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’1965 میں پاکستان کا زیادہ انحصار امریکہ پر تھا، لیکن آج چین ایک اہم دفاعی شراکت دار ہے۔ جے ایف-17 تھنڈر اور چینی میزائل سسٹمز نے ایف-16 پر انحصار کم کر دیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی حکمتِ عملی میں اب یہ بات نمایاں ہے کہ ایسے ہتھیاروں پر انحصار کم کیا جائے جن کی سیاسی یا معاشی قیمت زیادہ ہو سکتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان