آپریشن جبرالٹر، جو 1965 کی پاک بھارت جنگ کا سبب بنا

ستمبر 1965 کی جنگ سے پہلے پاکستان نے بھارت سے کشمیر حاصل کرنے کے لیے ایک خفیہ آپریشن شروع کیا۔ اس آپریشن کے پیچھے کون تھا اور یہ کامیاب کیوں نہ ہو سکا؟

بھارت اور پاکستان کے درمیان 1965 میں ہونے والی جنگ کا ایک منظر (پاکستان آرمی/پبلک ڈومین)

جولائی اور اگست 1965 میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور پاکستان کی مسلح افواج نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کو بھارت کے قبضے سے آزاد کروانے کے لیے ایک گوریلا آپریشن شروع کیا جسے ’آپریشن جبرالٹر‘ کا نام دیا گیا۔

اس آپریشن کا مقصد بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں خفیہ طریقوں سے مسلح کارروائی کرنا تھا تاکہ وادی میں بھارت سے آزادی کی راہ ہموار کی جا سکے اور ایسے حالات پیدا کر دیے جائیں کہ وہاں موجود بھارتی فوجی قوت کمزور پڑ جائے اور پھر براہ راست فوجی حملہ کرکے کشمیر حاصل کر لیا جائے۔

آپریشن جبرالٹر کی منصوبہ بندی ایک سال قبل 1964 میں شروع ہوئی تھی۔ جی ایچ کیو نے کشمیر کی آزادی کے دو متوازی منصوبے تیار کیے تھے، ایک منصوبے کا مقصد جنگ بندی لائن کے پار سبوتاژ کی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی اور دوسرے کا مقصد کشمیر میں بھیجے جانے والے گوریلوں کو امداد کی فراہمی تھا۔

ان دونوں منصوبوں کی تیاری اور گوریلوں کو تربیت دینے کی ذمہ داری جی ایچ کیو کی جانب سے 12 ڈویژن کو سونپی گئی تھی، جس کا ہیڈ کوارٹر مری میں تھا۔ یہ منصوبے جنرل آفیسر کمانڈنگ جنرل اختر حسین ملک نے تیار کیے تھے جب کہ اسے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور سیکریٹری جنرل خارجہ عزیز احمد کی تائید بھی حاصل تھی۔

یہ دونوں منصوبے دسمبر 1964 میں ایوب خان کو ڈھاکہ میں پیش کیے گئے، جو اس وقت اپنی انتخابی مہم میں بری طرح مصروف تھے۔ ایوب خان نے اپنے پرنسپل سیکریٹری اور سیکریٹری اطلاعات (الطاف گوہر) کو ہدایت کی کہ وہ اس منصوبے کا جائزہ لیں۔ منصوبے کا جائزہ لینے کے بعد دونوں افسران نے رائے دی کہ ان منصوبوں کی حیثیت ایک بےوقت اور احمقانہ مہم جوئی سے زیادہ نہیں۔

ایوب خان کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد وہی منصوبہ فروری 1965 کے وسط میں کابینہ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس موقعے پر کمانڈر ان چیف اور دوسرے اعلیٰ افسران چپ چاپ بیٹھے رہے، مگر سیکریٹری خارجہ عزیز احمد نے اس منصوبے کی بھرپور تائید کی اور کہا کہ بھارت کی پوزیشن اس وقت بہت کمزور ہے، اسے قیادت کے بحران کا سامنا ہے اور کشمیر میں اپنا دفاع کرنا اس کے لیے ناممکن ہو چکا ہے۔

عزیز احمد نے کہا کہ کشمیر کی تمام وادی ایک پرجوش عوامی بغاوت کی لہر میں ہے اور اگر مجاہدانہ کارروائی کے ذریعے بھارتی فوجوں کی توجہ کا رخ موڑ دیا جائے اور تربیت یافتہ سپاہی کشمیری حریت پسندوں کی مدد کو پہنچ جائیں تو کشمیر بہت جلد آزاد ہو سکتا ہے۔

عزیز احمد کی گفتگو کے بعد ایوب خان نے درشت لہجے میں کہا، ’دفتر خارجہ اور آئی ایس آئی کو اس طرح کا منصوبہ بنانے کی اجازت کس نے دی؟ اس طرح کی منصوبہ سازی ان کا کام نہیں ہے۔ میں نے تو صرف یہ ہدایت دی تھی کہ کشمیر کی صورت حال پر نظر رکھی جائے۔‘

اجلاس میں بھٹو بھی موجود تھے مگر انہوں نے مکمل خاموش اختیار کیے رکھی۔ شاید وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ اس منصوبے میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں اور سب کچھ ان کے محکمے کے سیکریٹری کا کیا دھرا ہے۔ اجلاس کے بعد کشمیر کی آزادی کے لیے تیار کیا گیا مسلح مداخلت کا منصوبہ بظاہر داخل دفتر کر دیا گیا۔

مگر کچھ عرصے بعد اپریل 1965 میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے فضا کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔ رن کچھ کا علاقہ پاکستان کے صوبہ سندھ اور سابق ریاست کچھ کے درمیان ایک خشک جھیل کا غیر آباد علاقہ ہے۔ اس متنازع علاقے کو 1947 میں بھارتی ریاست گجرات میں شامل کر لیا گیا تھا۔ اس علاقے میں سے تقریباً ساڑھے تین ہزار مربع میل کے علاقے پر پاکستان کا دعویٰ تھا جب کہ بھارت کا دعویٰ تھا کہ 8400 مربع میل کا یہ سارا علاقہ اس کی ملکیت ہے۔

چونکہ سرحدی علاقوں کی حدبندی نہیں ہوئی تھی اس لیے سرحد کے دونوں طرف بسنے والے دیہاتی، اس متنازع علاقے میں واقع سبز گاہوں، جنہیں بیٹ (Bet) کہا جاتا ہے، بلا روک ٹوک اپنے مویشی چراتے تھے۔ 1956 میں بھارت کی سرحدی فوج نے پاکستانی دیہاتیوں کو ایسے ہی ایک بیٹ سے، جس کا نام چھڈ بیٹ تھا، نکال باہر کیا اور ان کے مویشی اپنے قبضے میں لے لیے۔

نتیجتاً پاکستان اور بھارت کے گشتی دستوں میں تصادم ہو گیا مگر چھڈ بیٹ پر بھارت کا قبضہ بدستور قائم رہا۔ اگلے نو برس تک یہ صورت حال جوں کی توں رہی۔ جنوری 1965 میں بھارت نے ایک مرتبہ پھر پاکستانی فوج کے گشت میں مداخلت شروع کی اور اس علاقے میں جگہ جگہ مورچے کھود کر جنگی مشقوں کا آغاز کر دیا۔

اپریل 1965 میں رن کچھ کے علاقے میں پاکستانی اور بھارتی فوجوں کے درمیان جھڑپوں کا باقاعدہ آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں پاکستان نے کنجرکوٹ اور بیاربیٹ کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔

چند روز بعد برطانوی وزیراعظم ہیرالڈ ولسن نے دونوں حکومتوں کے مابین مفاہمت کروانے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں، چنانچہ 30 جون 1965 کو دونوں ممالک نے جنگ بندی کے ایک معاہدے پر دستخط کر دیے اور یہ معاملہ ایک بین الاقوامی ٹریبونل کے سپرد کر دیا گیا۔


رن کچھ کے قضیے کے بعد پاکستانی فوج کے ذمہ داروں نے فیصلہ کیا کہ کشمیر کی آزادی کے لیے تیار کیا گیا مسلح مداخلت کا منصوبہ جو داخل دفتر کر دیا گیا تھا، اسے دوبارہ زندہ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔

اس وقت کے پاک فوج کے کمانڈر ان چیف جنرل محمد موسیٰ نے اپنی کتاب ’مائی ورژن‘ میں اس منصوبے کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ انہوں نے لکھا، ’جب حکومت نے فیصلہ کیا کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے اندر کارروائی کرنی ہے تو میں نے 12ویں ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک کو ہدایت کی کہ وہ آپریشن کے لیے منصوبہ تیار کریں، اس آپریشن کا خفیہ نام ’آپریشن جبرالٹر‘ رکھا گیا۔

’جی ایچ کیو نے اس منصوبے کی توثیق کی اور اس میں مناسب ترمیم اور اضافہ بھی کیا۔ سات اگست 1965 کو اس آپریشن کے آغاز سے پہلے میجر جنرل اختر حسین ملک نے مری میں ریت کا ایک ماڈل بنا کر اس کی ریہرسل کی، اس آپریشن پلان پر ہمارا مکمل کنٹرول تھا۔ یہ منصوبہ مختصر المعیاد بنیادوں پر تیار کیا گیا تھا، اس میں عسکری نوعیت کے اہداف تک پہنچنا، سبوتاژ کرنا اور رسل و رسائل کے ذرائع تباہ کرنا شامل تھا۔

’اس منصوبے کا طویل المعیاد پہلو یہ تھا کہ بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے عوام میں اسلحہ تقسیم کیا جائے اور وہاں گوریلا لڑائی کے لیے فضا تیار کر کے بغاوت کی تحریک کو تقویت پہنچائی جائے۔ اس منصوبے میں حصہ لینے والے مجاہدین کی تعداد سات ہزار تھی جو پاکستان کے زیرانتظام کشمیر سے تعلق رکھتے تھے اور جنہیں ایک مختصر سے وقت میں گوریلا تربیت دی گئی تھی۔ ان مجاہدین کو ذاتی ہتھیاروں کے علاوہ ہلکی مشین گنوں اور مارٹروں سے مسلح کیا گیا تھا اور انہیں وائرلیس سیٹ بھی مہیا کیے گئے تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آپریشن جبرالٹر کی ذمہ داری مسلم فاتحین سے موسوم ’طارق،‘ ’قاسم،‘ ’خالد،‘ ’صلاح الدین‘ اور ’غزنوی‘ نام کے پانچ دستوں کے سپرد کی گئی تھی۔ اس آپریشن کی مدد کے لیے ایک اضافی آپریشن بھی تشکیل دیا گیا تھا جس کا نام ’نصرت‘ تھا۔ یہ تمام دستے 24 جولائی 1965 کو اپنے اپنے محاذوں پر روانہ ہوئے اور 28 جولائی کو اپنی اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ یہاں سے وہ جنگی بندی لائن کو عبور کرکے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کارروائی کے لیے اپنے متعینہ مقامات کی طرف روانہ ہو گئے۔

’طارق‘ نے ہمالیہ کے سلسلہ کوہ میں 17 ہزار فٹ کی بلندی تک مارچ کیا، اس کا کمانڈر اور متعدد جوان ناسازگار موسمی حالات کا شکار ہو کر جان کی بازی ہار گئے اور باقی افراد کو واپس بلا لیا گیا۔

’قاسم‘ نے بانڈی پورہ کے شمال میں اپنا مرکز قائم کیا اور کئی پل تباہ کر دیے لیکن اگست کے تیسرے ہفتے میں اس کے لیے بھی نامساعد حالات کا مقابلہ کرنا ناممکن ہو گیا اور اس نے پسپائی کا فیصلہ کر لیا۔ ’خالد‘ نے تراہاگان کے مقام پر دشمن کی ایک بٹالین پر حملہ کیا مگر اس کا کمانڈر اپنی کمپنیوں پر کنٹرول نہ رکھ سکا اور انہیں چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں کے شکل میں واپسی اختیار کرنی پڑی۔

’صلاح الدین‘ کے کمانڈر میجر منشا خان نے پنچال کے علاقے میں کارروائی کا آغاز کیا مگر ان کے بیس کیمپ بھارتی فوج کی نظر میں آ گئے اور انہیں بھی پسپا ہونا پڑا۔ تاہم ’غزنوی‘ جو میجر ملک منور خان اعوان کی کمان میں راجوری کے علاقے میں داخل کی گئی اور راجوری، بدھل، تھانہ منڈی اور مینڈھر کے علاقوں میں بھارتی فوج کو شکست دے کر قابض ہو گئی۔

اگر غزنوی فورس کو راجوری، بدھل، تھانہ منڈی اور مینڈھر کے قابض شدہ علاقوں علاقے سے واپس نہ بلایا جاتا تو جبرالٹر آپریشن کم از کم جنوب مغربی کشمیر کے علاقوں میں مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا۔

ان تمام دستوں کے عقب میں ’نصرت‘ کا دستہ تھا، اسے دشمن کے مواصلاتی مراکز، توپ خانے اور اسلحہ کے ڈپوؤں پر حملوں کا فریضہ سونپا گیا تھا، مگر وہ بھی دشمن کو نقصان پہنچانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اگست کے تیسرے ہفتے تک تمام کا تمام آپریشن جبرالٹر منتشر ہو کر دم توڑ چکا تھا۔

آپریشن کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ بر سر پیکار کمانڈوز اور مجاہدین کو عقب سے کمک پہنچانے اور سری نگر تک قبضے تک اس آپریشن کو جاری رکھنے کے بارے میں کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کمانڈوز اور مجاہدین نے وقتی طور پر تو اپنا مقصد حاصل کرکے بھارتی فوج کو حیران کیا، لیکن کمک کی عدم دستیابی اور دوسرے عوامل نے ان کو باقاعدہ افواج کے سامنے بےبس کر دیا تھا۔

بہرحال یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپریشن جبرالٹر کے نتائج خطرناک نکلے اور اسی آپریشن کے بطن سے 1965 کی پاک بھارت جنگ برآمد ہوئی۔ عام رائے کے مطابق اگر میجر منور کے احتجاج کو مدنظر رکھ کر غزنوی فورس کو راجوری، بدھل، تھانہ منڈی اور مینڈھر کے قابض شدہ علاقوں علاقے سے واپس نہ بلایا جاتا تو جبرالٹر آپریشن کم از کم جنوب مغربی کشمیر کے علاقوں میں مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا کیونکہ بھارتی فوج مسلسل کوششوں کے باوجود غزنوی فورس سے یہ علاقے واپس لینے میں ناکام ہو گئی تھی۔

اس ناکامی کی کئی وجوہ تھیں۔ جن میں پہلی وجہ تو یہی تھی کہ اس آپریشن میں شرکت کرنے والے گوریلا دستوں کی تربیت ناکافی تھی۔ پھر پاکستان کے دفتر خارجہ اور خفیہ اداروں کی اطلاعات کے برعکس بھارت کا اپنا حفاظتی نظام خاصا بہتر تھا اور اس نے متاثرہ علاقوں میں کسی ممکنہ گڑبڑ کو دبانے کے لیے موثر اور بے رحمانہ ذرائع استعمال کیے تھے۔

پاکستان کی فوجی قیادت نے آپریشن جبرالٹر کی ناکامی کے بعد ’آپریشن گرینڈ سلیم‘ شروع کیا، جس کا مقصد بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں متعین بھارتی فوج کی سپلائی لائن کاٹنے کی غرض سے ریل کے واحد رابطے کو منقطع کرنے کے لیے اکھنور پر قبضہ کرنا تھا۔

مگر یہ آپریشن بھی وقت کا موزوں انتخاب نہ ہونے کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوا۔ عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ آپریشن، آپریشن جبرالٹر سے پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔ آپریشن جبرالٹر کی ناکامی کے بعد آپریشن گرینڈ سلیم محض اقدام خودکشی تھا۔

نوٹ: اس تحریر کی تیاری کے لیے مندرجہ ذیل کتابوں سے مدد لی گئی: ایوب خان، فوج راج کے پہلے دس سال: الطاف گوہر
رن کچھ سے چونڈہ تک: خالد محمودمائی ورژن: جنرل محمد موسیٰ
وہ سترہ دن: متفرق مصنفین
چھ ستمبر تاریخ کے آئینے میں: زاہد حسین انجم

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ