مئی 1965 میں ریڈیو پاکستان کے ایک بلیٹن میں نیوز کاسٹر شکیل احمد نے بتایا: ’کراچی میں آج ایک سرکاری ترجمان نے کہا ہے کہ اگر ہندوستان نے اپنے علاقوں میں پاکستانی جنگی جہازوں کی پرواز روکی تو پاکستان بھی اسی قسم کی کارروائی پر مجبور ہو جائے گا۔‘
اس بلیٹن سے دونوں ملکوں میں بڑھتی کشیدگی ظاہر ہوتی ہے۔ بھارت کا الزام تھا کہ پاکستان نے آپریشن جبرالٹر کے ذریعے کشمیر میں دراندازی شروع کر دی ہے، جبکہ پاکستان کا مؤقف تھا کہ بھارت جارحیت پر تُلا ہوا ہے۔
6 ستمبر 1965 کی صبح چار بجے بھارت نے پاکستان پر اچانک حملہ کر دیا۔ پاکستان کو اندازہ تھا کہ بھارت کچھ کرے گا مگر اتنی بڑی جنگ کا شاید ہمیں آئیڈیا نہیں تھا۔
اس روز صدر ایوب خان نے قوم سے خطاب میں کہا: ’ہندوستانی حکمران شاید ابھی نہیں جانتے کہ انہوں نے کس قوم کو للکارا ہے!‘
ایوب کی یہ تقریر ریڈیو سے نشر ہوئی اور چند منٹوں میں ایوب خان دوبارہ ہیرو بن گئے۔ خیال رہے یہ وہی سال ہے جب انہوں نے فاطمہ جناح سے الیکشن چھین کر کرسی صدارت پر قبضہ کیا تھا۔ ان کے خلاف والے جذبات بیٹھ گئے اور اب وہ ہیرو تھے۔
ایوب خان کی تقریر سے متاثر ہو کر حمایت علی شاعر نے ترانہ لکھا، ’اے دشمن دیں تو نے کس قوم کو للکارا‘۔
ریڈیو پاکستان لاہور نے اس جنگ میں صفِ اول کا کردار ادا کیا۔ ریڈیو پاکستان لاہور کے سینئر کارکن اور ریٹائرڈ لائبریرین اعجاز حسین مرحوم کی گفتگو ریکارڈ کا حصہ ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ ’چھ ستمبر کی صبح ساڑھے سات بجے جب میں دفتر پہنچا تو اس وقت عزیز الرحمٰن صاحب اناؤنسر جبکہ ڈیوٹی آفیسر خالد اکرام تھے۔ میں عزیز صاحب کے پاس گیا اور کہا کہ میں نے ترانوں کی ڈسکس نکالی ہوئی ہیں، آپ کہیں تو وہ نشر کر دیں؟ عزیز صاحب اور خالد اکرام تھوڑے متامل تھے کہ اسٹیشن ڈائریکٹر کے آنے کا انتظار کر لیں۔ مگر میں نے زور دے کر کہا جنگ لگ چکی ہے، جنگی ترانے فوراً نشر ہونا ضروری ہیں۔ میری نوکری کچی ہے، زیادہ سے زیادہ مجھے نکال دیا جائے گا، مجھے پرواہ نہیں، آپ ترانے چلائیں۔‘
پہلا ترانہ جو نشر کیا وہ فلم مجاہد کا تھا جسے مسعود رانا اور شوکت علی نے اپنی جان دار اور پُرجوش آوازوں میں گایا تھا، ’جاگ اُٹھا ہے سارا وطن، ساتھیو مجاہدو۔‘
جوں جوں ترانے نشر ہوتے گئے، ریڈیو کے گیٹ پر لوگ اکٹھے ہونے شروع ہو گئے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے لگے۔ ہمارے اندر بھی ایک نئی قسم کا جوش اور جذبہ بیدار ہو گیا۔ بعد میں سٹیشن ڈائریکٹر شمس الدین بٹ آئے تو انہوں نے مجھے شاباش دی۔
1965 میں اعظم خان ریڈیو لاہور پر پروڈیوسر تھے۔ انہوں نے بتایا کہ، ’سٹیشن ڈائریکٹر کے دفتر میں نور جہاں نے 8 ستمبر کو فون کیا اور اپنے بارے میں بتایا تو شمس الدین بٹ صاحب کو یقین نہ آیا کہ نور جہاں کا فون ہو سکتا ہے۔ وہ کہنے لگے جنگ کا زمانہ ہے اور پتہ نہیں کون تنگ کر رہا ہے۔ بٹ صاحب نے فون بند کر دیا۔‘
نور جہاں نے بتایا کہ، ’حسن لطیف (موسیقار) بھائی میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے کہا، کچھ ایسا ہو سکتا ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی میں ہم اپنے وطن کے لیے جان لڑا دیں؟ ہم ریڈیو پہنچے تو کسی کو اطلاع نہیں تھی۔ سب بہت حیران ہوئے۔ اعظم بھائی نے کہا ہماری خوش قسمتی ہے کہ آپ آئی ہیں۔‘
اعظم صاحب اس وقت کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ، ریڈیو لاہور پر اس زمانے میں 20،25 پروڈیوسر کام کرتے تھے اور ایک سے بڑھ کر ایک لائق فائق آدمی تھا مگر یہ عزت میرے حصے میں آئی کہ میڈم کے ساتھ کام کرنے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی۔
صوفی تبسم صاحب ریڈیو پر ہی موجود تھے۔ انہوں نے ایک استھائی انترہ لکھ دیا، ’میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں راکھاں۔‘
اتفاق سے موسیقار جوڑی سلیم اقبال بھی ادھر ہی موجود تھے۔ انہوں نے فوراً دھن تیار کی۔ میڈم نور جہاں نے کہا کم از کم تین انترے تو ترانے کے ہونے چاہئیں۔ جب صوفی صاحب سے کہا کہ مزید انترے دیں تو کہنے لگے، ’آمد ہو گی تو لکھوں گا نا! میرے اندر مشین تو نہیں لگی ہوئی۔ چائے اور سگریٹ کمرے میں بھجواؤ۔‘
اعظم صاحب نے فوراً تعمیل کی اور تھوڑی دیر بعد بقیہ ترانہ بھی صوفی صاحب نے لکھ دیا۔ یوں ایک پورے دن میں ترانہ لکھا گیا، کمپوز ہوا، ریکارڈ ہوا اور جب شام کو نشر ہوا تو دھوم مچ گئی۔
اعظم صاحب بتاتے ہیں کہ محاذ پر جوانوں کی شہادت کی خبر سُننے کے بعد صوفی صاحب نے گیت لکھا، ’ایہہ پُتر ہٹاں تے نئیں وکدے، توں لبھ دی پھریں بازار کُڑے۔‘ اعظم صاحب نے راگ بھیرویں میں اس کی خود ہی دھن وضع کی۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب یہ ترانہ ریکارڈنگ اور بیلنسنگ کے بعد سُنا تو، نور جہاں، صوفی صاحب اور میں، ہم تینوں جذبات میں رو رہے تھے۔
جنگ جاری تھی اور ترانے بھی روز تیار ہو رہے تھے۔
8 ستمبر کو ہی ریڈیو کراچی نے ’خطہِ لاہور کے جاں نثارو سلام‘ جیسا لازوال ترانہ تخلیق کیا۔ یہ ترانہ رئیس امروہوی نے لکھا، دھن نتھو خان نے بنائی اور مہدی حسن نے اپنی سریلی آواز میں گا کر امر کر دیا۔
پاکستان کے تمام ریڈیو اسٹیشنز کا عملہ چوکس تھا مگر ریڈیو پاکستان لاہور کا سٹاف، سکیورٹی گارڈ اور ڈرائیور سے لے کر انجینئر اور پروڈیوسرز تک سبھی ایک خاص لگن سے اپنے فرائض کچھ بڑھ کر ادا کر رہے تھے۔
ریڈیو لاہور کے ساتھ طویل عرصہ مختلف حیثیتوں میں وابستہ رہنے والے سینئر براڈ کاسٹر ریاض محمود ان دنوں شہر میں ہونے والے سماجی و ثقافتی پروگراموں کی رپورٹ ’شہر کی صوتی تصویر‘ کے نام سے پیش کرتے تھے، وہ بتاتے ہیں ’جنگ کے دوسرے دن میں صبح سویرے ریڈیو کے مرکزی دروازے پر پہنچا تو دیکھا وہاں ایک ہجوم جمع ہے۔ ہجوم میں ہی مجھے حبیب جالب نظر آئے۔ جب میں ان کے قریب گیا تو کہنے لگے، دیکھو بھئی یہ لوگ مجھے اندر نہیں جانے دے رہے۔ میں نے سکیورٹی گارڈ سے بات کی اور انہیں اندر لے گیا۔ جالب صاحب کہنے لگے، یہ دو تین چیزیں ہو گئی تھیں، میں نے سوچا ریکارڈ کروا دوں۔‘
ریاض صاحب کہتے ہیں میں جالب صاحب کو سٹوڈیو میں لے گیا اور انہوں نے تین نظمیں ریکارڈ کروائیں جن میں سے ایک تھی، ’زندہ باد اے چین و انڈونیشیا، تم سے قائم امنِ ایشیا۔‘
ریکارڈنگ کے بعد دستور کے مطابق ان سے ایک فارم پر دستخط کرنے کا کہا تاکہ انھیں ادائیگی ہو سکے۔ وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر کہنے لگے، ’او یار کیسی بات کر رہے ہو؟ میں اس کے پیسے لوں گا؟ نہ نہ بابا! یہ بات مجھ سے نہ کرو۔‘
میں نے کہا دیکھیے یہ تو ایک سرکاری سا کام ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن وہ نہ نہ کرتے تیزی سے چلے گئے۔
ریاض محمود صاحب پرانی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ریڈیو پاکستان لاہور میں کام کرنے والا ہر فرد صبح سویرے دفتر پہنچ جاتا اور رات گئے تک کام میں مصروف رہتا۔ اشفاق احمد ’تلقین شاہ‘ فیچر پروگرام کی تیاریوں میں مصروف نظر آتے۔ اعجاز بٹالوی ’آج کی بات‘ کے عنوان سے روزانہ رات کو تقریر کیا کرتے۔ تجمل حسین بھی ان دنوں رات کو تقریر کیا کرتے۔ نصیر انور بھی اپنا پروگرام پیش کرنے کے لیے سٹوڈیو میں موجود ہوتے۔ دیہاتی بھائیوں کے مقبول پروگرام ’سوہنی دھرتی‘ میں مرزا سلطان بیگ، نظام دین اور رشید حبیبی قائم دین کا کردار پوری فنکارانہ دل جمعی اور مہارت سے ادا کرتے۔ باتوں باتوں میں وہ عوام اور محاذ پر لڑنے والے جوانوں کا حوصلہ بڑھانے کے ساتھ ساتھ دشمن کو بھی للکارتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری طرف میوزک سٹوڈیوز میں خوب چہل پہل ہوتی تھی۔ میوزک ڈائریکٹر کالے خاں، صادق علی مانڈو اور دیگر نئی نئی دھنیں ترتیب دینے میں مصروف رہتے۔ شاعر اپنا اپنا کلام موسیقاروں کے حوالے کرتے۔ دھنیں بنتیں اور ان کی ریکارڈنگ شروع ہو جاتی۔
نور جہاں، نسیم بیگم، روشن آرا بیگم، امانت، فتح علی خاں، نزاکت، سلامت علی خاں، حامد علی بیلا اور سلیم رضا، یہ سب لوگ ریڈیو پر ہی موجود ہوتے اس بات کی پروا کیے بغیر کہ دشمن کے جہاز گولے برسا رہے ہیں اور ہم جنگ کی حالت میں ہیں۔ وہ سب ایک عجیب سے نشے اور جذبے کے ساتھ ترانوں کی ریکارڈنگ میں مصروف رہتے۔
ریاض صاحب ایک دلچسپ واقعہ بتاتے ہیں کہ عام طور پر جب دشمن کے فضائی حملے کا خدشہ ہوتا تو سائرن بجتا تو لوگ ریڈیو کے وسیع لان میں بنے مورچوں میں چلے جاتے۔ ایک دن جب سائرن بجے تو نور جہاں سٹوڈیو میں ہی موجود رہیں۔ جب کسی ساتھی نے سائرن بجنے کی طرف توجہ مبذول کروائی تو وہ کہنے لگیں، ’اڑیا! (دوست) موت اگر آنی ہے تو وہ مورچے میں بھی آ جائے گی، بس میں ادھر ہی رہوں گی۔‘ اس دن کے بعد جنگ کے خاتمے تک جب کبھی بھی سائرن بجتے میڈم سٹوڈیو میں ہی مصروف رہتیں۔
معروف فنکار خالد عباس ڈار بتاتے ہیں کہ جی ایچ کیو کی طرف سے ریڈ کراس ایسوسی ایشن آف پاکستان کو ایک خط موصول ہوا کہ فوجی دستوں کا حوصلہ بلند رکھنے اور تفریح بہم پہنچانے کے لیے بندوبست کیا جائے۔ ریڈ کراس ایسوسی ایشن کے چیئرمین سید واجد علی شاہ آل پاکستان میوزک کانفرنس کے صدر بھی تھے جب کہ حیات احمد خان سیکریٹری تھے۔ ڈار صاحب اس زمانے میں گورنمنٹ کالج لاہور میں 21، 22 عمر میں تھرڈ ائیر کے طالب علم تھے۔ انھیں واجد علی شاہ اور حیات احمد خان کی طرف سے کہا گیا کہ بہت سے فنکار آل پاکستان میوزک کانفرنس سے رابطے میں ہیں اور اس موقع پر خدمات دینے کو بھی تیار ہیں لہذا گروپ ترتیب دیں۔
مسعود رانا، شوکت علی، طفیل نیازی، سائیں اختر، شاہ جہاں بیگم، نذیر بیگم، زاہدہ پروین، فریدہ خانم، امانت علی، فتح علی، منظور جھلاّ، روشن آرا بیگم اور استاد شریف خاں پونچھ والے جیسے فنکار جنگی محاذوں پر جانے کو تیار تھے۔
خالد عباس ڈار بیان کرتے ہیں کہ 23 ستمبر 1965 سے پورے پاکستان میں مختلف محاذوں پر سی ایم ایچ ہسپتالوں، بحریہ، فضائیہ اور بری افواج کے جوانوں کو محظوظ کرنے کے لیے شوز کیے۔ دو دفعہ اکھنور اور قلعہ سوبھا سنگھ نارووال کے محاذوں پر فنکاروں کے طائفے پر حملہ بھی ہو گیا۔ سات ساڑھے سات لاکھ جوانوں کو اس عرصے میں فنکاروں نے اپنے فن سے تفریح بہم پہنچائی۔
ڈار صاحب بتاتے ہیں دوسرے فنکار گاتے تھے اور میں انھیں ہنساتا تھا۔ کراچی میں بھارت سے چھینے گئے جہاز سرسوتی پر وائس ایڈمرل اے آر خان کی خصوصی اجازت سے بھرپور شو کیا۔ ستمبر سے نومبر تک ان شوز کا سلسلہ جاری رہا۔ ان شوز میں جنرل ٹکا خان، جنرل انصاری، جنرل بختیار اور دیگر بڑے فوجی افسران بھی شامل ہوتے۔ فنکاروں کی بے مثال کارکردگی کی شہرت صدر ایوب تک بھی پہنچی۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔