فتح کی صورت میں جو بائیڈن امریکی پالیسیوں میں بڑی تبدیلی کے خواہشمند

جوبائڈن کا کہنا تھا کہ 'میں قومی سلامتی اور انٹیلی جنس کے معاملات کو جانتا ہوں۔ میں پوری زندگی یہی کرتا رہا ہوں جبکہ ٹرمپ کو ان کا کچھ پتہ نہیں ہے۔'

(اے ایف پی)

امریکہ کے آئندہ صدارتی انتخابات میں موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہار اور سابق نائب صدر جوبائڈن کی فتح کی صورت میں امریکی پالیسیوں میں بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔

جو بائڈن فتح حاصل کرنے کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کیے جانے والےکئی بڑے فیصلوں اور اقدامات کو واپس لینے، معطل اور مکمل طور پر ختم کرنے جیسے فیصلے کر سکتے ہیں۔

ان اقدامات میں صدر ٹرمپ کی جانب سے مشرق وسطی، ایشیا، لاطینی امریکہ، افریقہ، یورپ، تجارت، دہشت گردی، اسلحہ کی فروخت، امیگریشن قوانین جیسے اہم فیصلے شامل ہیں۔

امریکی عوام کی جانب سے بھی جو بائڈن سے پرانے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات دوبارہ مضبوط کرنے کی امید کی جا سکتی ہے۔

صدر ٹرمپ اپنی بات منوانے کے لیے کھلی دھمکیوں اور تضحیک سے کام لیتے رہے ہیں جبکہ جوبائڈن جو کہ ایک سابق سینیٹر بھی ہیں وہ مشترکہ مفادات تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق امریکہ میں ڈیموکریٹ یا ری پبلکن پارٹی کی فتح کی ہر دو صورتوں میں انتظامیہ کی پالیسیوں میں زیادہ بڑی تبدیلی نہیں دیکھی جاتی اور امریکہ کے اتحادی اور حریف وہی رہتے ہیں۔

ٹرمپ کی 'امریکہ فرسٹ' یعنی 'سب سے پہلے امریکہ' کی پالیسی کو امریکی اتحادیوں اور خارجہ پالیسی ماہرین اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جب کہ روس اور شمالی کوریا جیسے امریکی حریفوں کے حوالے سے وہ کافی گرم جوشی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

صدر ٹرمپ تمام تر کوششوں کے باوجود بھی بڑے فیصلے کرنے میں جلد بازی نہیں کر سکے۔

ایران جوہری ڈیل سے جلدی نکلنے میں بھی انہیں ایک سال سے زائد کا عرصہ لگا۔ پیرس ماحولیاتی معاہدے سے الگ ہونے کی ان کی بھرپور کوششیں اور پھر ڈبلیو ایچ او سے علیحدگی کا فیصلہ بھی نومبر کی تین تاریخ کو ہونے والے انتخابات تک نافذ نہیں ہو سکتا۔ جرمنی سے ہزاروں امریکی فوجی واپس بلانے میں بھی کئی سال لگ سکتے ہیں۔

دوسری جانب جوبائڈن سینیٹ اور وائٹ ہاوس کے تجربے کو استعمال کرتے ہوئے جلد ہی کوئی تبدیلی لا پائیں گے۔

منگل کو بائڈن صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ وہ جانتے ہیں عالمی طور پر معاملات کو کیسے چلایا جاتا ہے۔ جوبائڈن کا کہنا تھا کہ 'میں قومی سلامتی اور انٹیلی جنس کے معاملات کو جانتا ہوں۔ میں پوری زندگی یہی کرتا رہا ہوں جبکہ ٹرمپ کو ان کا کچھ پتہ نہیں ہے۔' بائڈن کی ٹیم میں سابقہ امریکی صدور کے ساتھ کام کرنے والے خارجہ پالیسی کے ماہرین بھی شامل ہیں۔

جبکہ ٹرمپ کی جانب سے جوبائڈن کی خارجہ پالیسی کو ان کی کمزوری قرار دیا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جو بائڈن کے حامی اور وہ خود بھی جن معاملات پر جلد فیصلے کرنے کے خواہاں دکھائی دیتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:

مشرق وسطی: فلسطینی اتھارٹی کو امریکی امداد کی بحالی۔ گو کہ بائڈن کی جانب سے صدر ٹرمپ کے امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے کے فیصلے کو واپس لینے کا نہیں کہا گیا۔

اقوام متحدہ: اقوام متحدہ کے مختلف اداروں جیسے کہ یونیسکو اور انسانی حقوق کونسل میں امریکہ کی بطور رکن بحالی۔

یورپ: یورپی اتحادیوں کے خلاف صدر ٹرمپ کے تضحیک آمیز رویے کا خاتمہ اور نیٹو ارکان سے تعلقات میں گرم جوشی لانا۔

افریقہ: براعظم افریقہ میں چین سے مقابلے کے لیے امریکی اثرورسوخ میں اضافہ کرنا۔

ایشیا: جاپان اور جنوبی کوریا میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کی حمایت کرنا۔ بائڈن صدر ٹرمپ کے شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ کے ساتھ تعلقات پر بھی تنقید کر چکے ہیں۔

لاطینی امریکہ: عدالت کے فیصلوں کا انتظار کرتے پناہ گزینوں کو میکسیکو بھیجنے جیسے معاہدوں کا خاتمہ۔ میکسیکو کے ساتھ دیوار کی تعمیر کے لیے مختص فنڈنگ کا متبادل استعمال، اوبامہ دور میں کیوبا کے ساتھ بحال کیے گئے تعلقات کو فروغ دینا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ