فیض حمید کیس، کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی

داخلی پیغام یہ ہے کہ جو کوئی بھی ہے اور جہاں بھی ہے وہ یہ جان لے کہ قانون اگر فیض حمید جیسی شخصیت پر نافذ ہو سکتا ہے تو پھر ہر ایک پر نافذ ہو سکتا ہے۔

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید کی کابل کے سرینا ہوٹل میں 7 ستمبر 2024 کو چائے پیتے ہوئے وہ تصویر جو وائرل ہوئی (ایکس اکاونٹ لینزی ہیلسم)

یہ فیض حمید کیس کا ابتدائی فیصلہ ہے، اسے آپ مطلع کہہ سکتے ہیں، مقطع ابھی باقی ہے۔ مطلع کا عنوان فیض حمید ہیں، مقطع کا عنوان عمران خان بھی ہو سکتے ہیں۔

اس کیس کے فیصلے کے اثرات میں تین پہلو نمایاں ہیں۔ ایک قانونی، دوسرا داخلی اور تیسرا خارجی۔ قانونی پہلو پر تو تفصیل سے تب ہی بات ہو سکے گی جب فیصلہ دستیاب ہو گا، پھر یہ کہ ابھی اپیل کے مراحل بھی باقی ہیں۔ تاہم باقی دو پہلو اس اہتمام کے محتاج نہیں اور وہاں اس فیصلے کے اثرات ابھی سے نمایاں ہوں گے اور ان پر بات کی جا سکتی ہے۔

داخلی طور پر اس فیصلے کا پیغام بہت واضح ہے اور اس کا سادہ سا عنوان ہے کہ  To Whom It May Concern

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

داخلی پیغام یہ ہے کہ جو کوئی بھی ہے اور جہاں بھی ہے وہ یہ جان لے کہ قانون اگر فیض حمید جیسی شخصیت پر نافذ ہو سکتا ہے تو پھر ہر ایک پر نافذ ہو سکتا ہے۔ فوج اگر اپنے ڈی جی آئی ایس آئی کو کٹہرے میں کھڑا کر سکتی ہے تو پھر قانون کا کٹہرا کسی کے لیے موم نہیں رہے گا۔

یہ پیغام بھی واضح ہے کہ اگر کسی کو کسی معاملے میں ابھی بھی کوئی ابہام ہے تو وہ اسے دور کر لے۔ اس پیغام کے نتائج آنے والے دنوں میں بہت نمایاں ہو کر سامنے آ سکتے ہیں۔

خارجی اور سفارتی سطح پر پیغام یہ ہے کہ پاکستان، جو کہ ایک ایٹمی قوت ہے، اس ایٹمی قوت کی فوج ایک ڈسپلنڈ ادارہ ہے جہاں چین آف کمانڈ اپنی پوری اتھارٹی کے ساتھ موجود ہے۔ یہاں کوئی صاحب منصب کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو وہ اس چین آف کمانڈ سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ فوج مضبوط ہے، ذمہ دار ہے اور چین آف کمانڈ اپنی پوری معنویت کے ساتھ موجود ہے۔ اس میں کو کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔

ہمارے ہاں زیادہ تر فوکس داخلی حوالے سے رہا، تاہم یہ خارجی پہلو بھی کم اہم نہیں، بس تھوڑے لکھے کو بہت سمجھا جائے۔ اس معاملے پر اتنی ہی بات ہو سکتی ہے۔

داخلی سطح پر بھی اس کا تجزیہ کرتے ہوئے مبصرین اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ، لیکن کی گنجائش نکال رہے ہیں اور یہ فطری بات ہے، تاہم سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ ایک ابتدائی عمل ہے اور ایسا عمل ہے جس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔

 

ابتدا میں یہ اگر، مگر، چنانچہ، چنانچہ کے یہ سارے عناصر موجود رہتے ہیں۔ اس مرحلے پر مثالیت پسندی کا مطالبہ شاید درست نہ ہو۔ جوں جوں بات آگے بڑھتی ہے، ہو سکتا ہے قانون کے اطلاق سے لپٹے یہ ’اگر مگر‘ تحلیل ہوتے چلے جائیں اور معاشرہ اس مقام پر پہنچ جائے جہاں ناقدین ایک ہی جست میں پہنچنا چاہتے ہیں۔ اسی کا نام ارتقا ہے۔

اس فیصلے کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ شاید اہم ترین ہے۔ بتایا گیا ہے کہ فیض حمید صاحب کی سیاسی مفادات کی خاطر اشتعال انگیز اور عدم استحکام کی کاوشوں میں شمولیت، کچھ سیاسی عناصر کے ساتھ ملی بھگت اور دیگر متعلقہ امور کو الگ سے نمٹا جا رہا ہے۔ یعنی مقدمے کا اہم ترین مرحلہ ابھی باقی ہے۔

جن سیاسی عناصر کے ساتھ ملی بھگت کو الگ سے دیکھا جا رہا ہے کیا ان سیاسی عناصر تک بات نہیں جائے گی؟ یقیناً جائے گی۔ اس پیراگراف میں شامل اصطلاحات بتاتی ہیں کہ ان کا اشارہ نو مئی کی طرف ہے۔ تو نو مئی کی طرف بات گئی تو عمران خان کی طرف بھی جائے گی۔ قرائن بتا رہے ہیں کہ عمران خان کا مشکل وقت آنے والا ہے۔

اس مرحلے کے بارے میں ابھی کچھ کہنا مشکل ہے لیکن نو مئی کو جو ہوا وہ ظاہر ہے کہ سیاسی احتجاج نہیں تھا، وہ اس سے کہیں زیادہ سنگین معاملہ تھا۔ جب بات یہاں تک پہنچے گے تو بات سے بات نکلے گی۔

پاکستان تحریک انصاف کے لیے مشکل وقت آنے والا ہے۔ حکمت اور معاملہ فہمی سے یہ وقت ٹالا جا سکتا تھا۔ سیاست کا کام ہی بند گلی سے رستہ نکالنا ہے، مگر تحریک انصاف کی غیر ضروری اشتعال انگیز سیاست نے کھلے راستوں کو بھی بند گلی میں بدل دیا۔

جس نے خیر خواہی کی اور توجہ دلائی، اس نے گالیاں کھائیں۔ نتیجہ یہ کہ اب تحریک انصاف برف کا پاٹ ہے اور دھوپ میں رکھا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر