جنرل فیض حمید کا نام پہلی مرتبہ 2017 میں منظرعام پر آیا تھا، جب مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا اور اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر کئی دنوں تک دھرنا دیا۔
الیکشن بل 2017 میں ختم نبوت سے متعلق حلف نامے کے الفاظ میں تبدیلی کے معاملے پر ہونے والے ٹی ایل پی کے اس دھرنے کو ختم کروانے میں جنرل فیض حمید نے اہم کردار ادا کیا، جس کی وجہ سے وہ خبروں میں رہے۔
وہ دوسری مرتبہ 2019 میں خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ کے طور پر تعینات ہونے کے بعد 2021 میں کابل کے سرینا ہوٹل میں اس وقت خبروں کا مرکز بنے، جب چائے پیتے ہوئے ان کی تصویر نے عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کی۔
صوبہ پنجاب کے چکوال ضلع سے تعلق رکھنے والے لیفٹینیٹ جنرل فیض حمید، فوج میں 76 لانگ کورس سے پاس آؤٹ ہونے کے بعد بلوچ رجمنٹ کا حصہ بنے۔
اکتوبر 2021 میں ان کی بطور کور کمانڈر پشاور تعیناتی ہوئی۔ اس کے دس ماہ بعد انہیں بہاولپور بحثیت کور کمانڈر بھیج دیا گیا۔
وہ لیفٹیننٹ جنرل کے طور پر جنرل ہیڈکوارٹر (جی ایچ کیو) میں ایڈجوٹنٹ جنرل کے عہدے پر بھی فائز رہے، جبکہ اس سے قبل راولپنڈی میں ٹین کور کے چیف آف سٹاف، پنوں عاقل میں جنرل آفیسر کمانڈنگ اور آئی ایس آئی میں ڈی جی کاؤنٹر انٹیلی جنس (سی آئی) سیکشن کے طور بھی فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔
لیکن جب نومبر 2022 میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو آرمی چیف نامزد کیا گیا تو انہوں نے قبل ازوقت ریٹائرمنٹ لے لی۔
آٹھ نومبر 2023 کو ہاؤسنگ سوسائٹی ٹاپ سٹی کے مالک نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی، جس میں انہوں نے جنرل ریٹائرڈ فیض حمید پر اختیارات کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا۔ درخواست میں یہ الزام لگایا گیا کہ 12 مئی 2017 کو جنرل فیض کے کہنے پر آئی ایس آئی حکام نے ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کے گھر اور دفتر پر چھاپے مارے اور سونا، ہیرے اور رقم سمیت دیگر قیمتی اشیا ضبط کیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت، پاکستان فوج نے فیض حمید کے خلاف کورٹ آف انکوائری کا انعقاد اپریل 2024 میں شروع کیا۔
اگست 2024 میں ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کرتے ہوئے انہیں تحویل میں لیا گیا۔ بعد میں انہیں باضابطہ طور پر چارج شیٹ کیا گیا۔
ان پر لگنے والے الزامات میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے ریاست کے تحفظ اور مفاد کو نقصان پہنچانا، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال اور افراد کو ناجائز نقصان پہنچانا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وہ نو مئی کے بدامنی کے واقعات میں بھی شاملِ تفتیش تھے۔
فوج میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا طریقہ کار تین حصوں پر مشتمل ہوتا ہے اور جرم ثابت ہونے کی صورت میں اس افسر کے رینک کی مناسبت سے مجاز اتھارٹی سزا کا فیصلہ کرتی ہے۔
اس عمل میں سب سے پہلے کسی بھی حاضر سروس یا ریٹائرڈ افسر کے خلاف کورٹ آف انکوائری ہوتی ہے۔ دوسرے حصے میں ’سمری آف ایویڈنس‘ ریکارڈ کی جاتی ہے اور اگر ثبوت اور شواہد موجود ہوں اور جرم ثابت ہو رہا ہو تو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کیا جاتا ہے۔
یہ جرم کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے کہ افسر کو کیا سزا دی جائے گی اور سزاؤں میں رینک واپس لینا، سہولیات وغیرہ کی واپسی کے علاوہ قید بامشقت اور موت کی سزا تک شامل ہیں۔
جمعرات (11 دسمبر) کو پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے جنرل فیض حمید کو 14 سال قید با مشقت قید کی سزا سنانے کا اعلان کیا۔
ان پر چار الزامات عائد کیے گئے، جن میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی جو ریاست کی سلامتی اور مفاد کو نقصان پہنچانے والی تھی، اختیارات اور حکومتی وسائل کا غلط استعمال اور افراد کو غلط نقصان پہنچانے سے متعلق تھے۔