فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے جنرل فیض حمید کو 14 سال قید بامشقت کی سزا سنا دی

سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کے بعد چار الزامات کے تحت سزا سنائی گئی۔

12 اگست 2024 کو پاکستانی فوج نے کہا تھا کہ خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سرابرہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے کر ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کر دی گئی ہے (وزیراعظم آفس)

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے جمعرات کو بتایا ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو 14 سال قید با مشقت قید کی سزا سنا دی گئی ہے.

آئی ایس پی آر کے میڈیا کو جاری اعلامیے کے مطابق: ’ 12 اگست 2024 کو مسٹر فیض حمید، جو سابق لیفٹیننٹ جنرل تھے، کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کیا گیا جو 15 ماہ پر محیط تھا۔

’ملزم پر چار الزامات عائد کیے گئے، جن میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی جو ریاست کی سلامتی اور مفاد کو نقصان پہنچانے والی تھی، اختیارات اور حکومتی وسائل کا غلط استعمال اور افراد کو غلط نقصان پہنچانے سے متعلق تھے۔

’طویل اور محنت طلب قانونی کارروائیوں کے بعد، ملزم کو تمام الزامات میں مجرم قرار دیا گیا اور عدالت نے اسے 14 سال سخت قید کی سزا سنائی، جو 11 دسمبر 2025 کو جاری کی گئی۔

’فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے تمام قانونی دفعات کی پابندی کی۔ ملزم کو تمام قانونی حقوق دیے گئے، جن میں اس کی پسند کی دفاعی ٹیم کے حقوق بھی شامل تھے۔ مجرم کو متعلقہ فورم پر اپیل کا حق حاصل ہے۔‘

فیض حمید، پاکستان فوج کی اعلیٰ افسر اور پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی (آئی ایس آئی) کے سربراہ رہے ہیں۔

گذشتہ برس 10 دسمبر کو پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے بیان میں بتایا تھا کہ ’12 اگست 2024 کو پاکستان آرمی ایکٹ کی متعلقہ دفعات کے تحت لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید (ر) کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کرتے ہوئے تحویل میں لیا گیا جبکہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے اگلے مرحلے میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو باضابطہ طور پر چارج شیٹ کردیا گیا ہے۔‘

بیان میں بتایا گیا کہ ’ان چارجز میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے ریاست کے تحفظ اور مفاد کو نقصان پہنچانا، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال اور افراد کو ناجائز نقصان پہنچانا شامل ہیں۔

اس کے علاوہ ’فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے عمل کے دوران ملک میں انتشار اور بدامنی سے متعلق پرتشدد واقعات میں فیض حمید کے ملوث ہونے سے متعلق علیحدہ تفتیش بھی کی جا رہی ہے، ان پر تشدد اور بدامنی کے متعدد واقعات میں نو مئی سے جڑے واقعات بھی شامل تفتیش ہیں جبکہ پرتشدد واقعات میں مذموم سیاسی عناصر کی ایما اور ملی بھگت بھی شامل تفتیش ہے۔‘

فیلڈ کورٹ مارشل کا طریقہ کار کیا ہے؟

میسر معلومات کے مطابق فوج میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا طریقہ کار تین حصوں پر مشتمل ہوتا ہے اور جرم ثابت ہونے کی صورت میں اس افسر کے رینک کی مناسبت سے ایک مجاز اتھارٹی سزا کا فیصلہ کرتی ہے۔

اس عمل میں سب سے پہلے کسی بھی حاضر سروس یا ریٹائرڈ افسر کے خلاف کورٹ آف انکوائری ہوتی ہے۔ دوسرے حصے میں ’سمری آف ایویڈنس‘ ریکارڈ کی جاتی ہے اور اگر ثبوت اور شواہد موجود ہوں اور جرم ثابت ہو رہا ہو تو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کیا جاتا ہے۔

یہ جرم کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے کہ افسر کو کیا سزا دی جائے گی۔ سزاؤں میں رینک واپس لینا، سہولیات وغیرہ کی واپسی کے علاوہ قید بامشقت اور موت کی سزا تک شامل ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کون سی تعیناتیوں پر رہے؟

لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا تعلق چکوال سے ہے۔ فوج میں پاس آؤٹ ہونے کے بعد وہ بلوچ رجمنٹ کا حصہ بنے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جنرل فیض حمید کا نام 2017 میں منظرعام پر آیا تھا جب تحریک لبیک نے ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا اور اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر کئی دنوں تک دھرنا دیا۔ جنرل فیض اس دھرنے کو ختم کرانے میں اہم کردار ہونے کے باعث خبروں میں رہے۔ ان کا نام چند دیگر سیاسی تنازعات میں بھی حزب اختلاف کے رہنما زوروشور سے لیتے رہے۔

2019 میں جنرل فیض حمید جب آئی ایس آئی میں ڈی جی سی کے عہدے پر تعینات تھے تب سے وہ میڈیا کی نظروں اور شہ سرخیوں میں رہے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید جون 2019 میں ڈی جی آئی ایس آئی مقرر کیے گئے تھے۔ اپریل 2019 میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ان کی ترقی ہوئی۔

ڈی جی آئی ایس آئی تعیناتی سے قبل وہ جی ایچ کیو میں ایڈجوٹنٹ جنرل کے عہدے پر فائز تھے۔ اس سے قبل وہ راولپنڈی میں ٹین کور کے چیف آف سٹاف، پنوں عاقل میں جنرل آفیسر کمانڈنگ اور آئی ایس آئی میں ڈی جی کاؤنٹر انٹیلی جنس (سی آئی) سیکشن بھی رہ چکے ہیں۔

بعد ازاں اگست2021 میں جنرل فیض حمید کا دورہ کابل بھی سرخیوں میں رہا۔ اکتوبر 2021 میں ان کی بطور کور کمانڈر پشاور تعیناتی ہوئی جس کی ذمہ داری انہوں نے نومبر میں سنبھالی۔

دس ماہ کے مختصر عرصے میں ہی انہیں پشاور سے بہاولپور کور کمانڈر تعینات کر دیا گیا لیکن جب نومبر 2022 میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کو آرمی چیف نامزد کیا گیا تو آرمی چیف کی فہرست میں موجود پانچویں نمبر کے افسر فیض حمید نے قبل ازوقت ریٹائرمنٹ لے لی۔

جنرل فیض کے ساتھ فوج میں سہولت کار کون تھے؟

آئی ایس پی آر کے مطابق، جنرل فیض کے ساتھ تین مزید فوجی افسران بھی فوجی تحویل میں لیے گئے تھے۔ گرفتار افسران میں دو برگیڈیئرز: برگیڈیئر ریٹائرڈ غفار، برگیڈیئر ریٹائرڈ نعیم اور ایک کرنل عاصم بھی شامل ہیں۔ تینوں افسران پیغام رسانی کا کام کرتے تھے۔

تینوں افسران سیاسی جماعت اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کےدرمیان رابطہ کاری میں شامل تھے۔ دونوں ریٹائرڈ بریگیڈیئر صاحبان کا تعلق چکوال سے ہے اور یہ جنرل فیض کے خاص اور منظور نظر افسران تھے جو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سیاسی پیغام رسانی اور سہولت کاری میں بھی ملوث تھے۔

فوج میں کڑے احتسابی عمل پر ڈی جی آئی ایس پی آر پریس کانفرنس میں واضِح بیان دے چکے ہیں کہ ’فوج میں خود احتسابی ایک کڑا، سخت، شفاف اور خود کار عمل ہے جو ہر وقت جاری رہتا ہے۔ جتنا بڑا عہدہ اتنی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان