پشاور یونیورسٹی میں تعلیمی پروگرام کیوں بند کیے جا رہے ہیں؟

اگر ہماری یونیورسٹیاں جدید دور کے تعلیمی تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہوئیں تو پھر وہ وقت دور نہیں جب عالمی درجہ بندی میں ہماری جامعات کا حال بھی ہمارے پاسپورٹ جیسا ہو جائے۔

پشاور یونیورسٹی نے اکتوبر 2025 میں کم شرحِ داخلہ کی وجہ سے نو تعلیمی پروگرام بند کرنے کا اعلان کیا ہے (پشاور یونیورسٹی فیس بک پیج)

پشاور یونیورسٹی نے موجودہ سیمسٹر سے کم داخلہ شرح کے باعث بیچلر آف سٹڈیز (بی ایس) پروگرامز کے نو شعبہ جات بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان پروگرامز میں جغرافیہ، ارضیات، تاریخ، شماریات، ڈویلپمنٹ سٹڈیز، سماجی بشریات، لاجسٹکس اور سپلائی چین اینالٹکس، انسانی ترقی و خاندانی مطالعات اور ہوم اکنامکس شامل ہیں۔

جامعہ کے منظور شدہ ضوابط کے مطابق اگر کسی پروگرام میں داخل ہونے والے طلبہ کی تعداد 15 سے کم ہو تو اس پروگرام کا داخلہ منسوخ تصور کیا جائے گا۔

اس سال ان پروگراموں میں موصول ہونے والی زیادہ تر درخواستوں کی تعداد ایک سے سات تک ہے۔ صرف جیالوجی میں 14 درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔

ان پروگراموں میں درخواستیں جمع کروانے والوں کا جامعہ کے ڈائریکٹربرائے داخلہ جات سے رابطہ کروانے کا کہا گیا ہے تاکہ وہ انہیں کسی متبادل پروگرام میں داخلے کی پیشکش کر سکیں۔

یہ واقعی پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک افسوس ناک خبر ہے۔ تاہم، یہ موقع بھی ہے کہ ہم دیکھیں آخر ایسا کیوں ہوا۔ ہماری جامعات طالب علموں کو کیوں مایوس کر رہی ہیں؟  ہم کیا غلط کر رہے ہیں اور ہم کن طریقوں سے اپنی ان غلطیوں سے ہونے والے نقصان کا مداوا کر سکتے ہیں؟

ہماری دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے لیکن ہم اپنا تعلیمی نظام اس دنیا کے مطابق تبدیل نہیں کر رہے۔ ہم آج بھی انہی فرسودہ پروگراموں میں پھنسے ہوئے ہیں جن کی دنیا تو کیا پاکستان میں بھی ضرورت ختم ہو چکی ہے۔ ان پروگرامز کے گریجویٹ ڈگری حاصل کرنے کے بعد اس ڈگری کا کچھ بھی نہیں کر پاتے۔  

آج کے دور میں جب پوری دنیا مصنوعی ذہانت، سسٹینابیلیٹی، روبوٹکس، کوانٹم کمپیوٹنگ اور ماحولیاتی تبدیلی کی بات کر رہی ہے، ہماری جامعات اپنے طالب علموں کو نظریاتی علوم پڑھا رہی ہیں۔

یہ جامعات شدید مالی بحران کا بھی شکار ہیں۔ وہ اپنی فیکلٹی کو مناسب تنخواہیں، سہولتیں اور مراعات فراہم نہیں کر پاتیں جس کے نتیجے میں اساتذہ کا کام سے دل اٹھ جاتا ہے۔ وہ جامعہ میں کوئی بامعنی کام کرنے کے بجائے بیرونِ ملک مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں اور جیسے ہی انہیں کوئی موقع ملتا ہے، وہ ادارے کو اس کے حال پر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔

جامعات کا اندرونی سیاسی ماحول بھی علمی ترقی کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ جامعات میں اکثر نئے پروگرام یا موجودہ پروگرامز میں تبدیلیاں زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے بجائے ذاتی مفاد کی بنیاد پر کی جاتی ہیں۔

صرف وہ تبدیلیاں کی جاتی ہیں جو انفرادی فائدے کا باعث بن سکیں، جس سے کسی فرد یا گروہ کی اکیڈیمک پروفائل بہتر ہو سکے، چاہے ان سے اس شعبے کو اور اس میں داخلہ لینے والوں کا کوئی بھی فائدہ نہ ہو رہا ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نئے پروگرام متعارف کروانے کے لیے یا موجودہ پروگرام میں تبدیلی لانے کے لیے کوئی تحقیق نہیں کی جاتی۔ بس اپنی ضرورت کے مطابق اس پروگرام یا اس میں تبدیلی کی ضرورت پیدا کر لی جاتی ہے۔ جامعہ کے ضوابط کے مطابق اپنی پسند کے لوگوں کو بلوا کر اپنی پسند کی بات کہلوائی جاتی ہے۔ پھر ایک اچھی سی انگریزی میں رپورٹ بنا کر جامعات کے کرتا دھرتا کے سامنے رکھ دی جاتی ہے جو اس رپورٹ کی بنیاد پر اس تبدیلی کی اجازت دے دیتے ہیں۔ پھر ایچ ای سی میں روابط ڈھونڈ کر اس تبدیلی کی منظوری لے لی جاتی ہے۔

ایسی تبدیلیاں اکثر عارضی ثابت ہوتی ہیں۔ ان سے صرف مخصوص افراد کا فائدہ ہوتا ہے مگر طلبہ اور معاشرے کو ان تبدیلیوں سے کچھ نہیں مل پاتا۔

شاور یونیورسٹی میں ایک سیمسٹر کی فیس 75 ہزار روپے ہے، جسے ادا کرنا بہت سے خاندانوں کے لیے مشکل ہے

 

اگر یہ تبدیلیاں وقت کی ضرورت کے اعتبار سے نہ کی جائیں تو ان پروگراموں میں داخلہ لینے والوں کا نہ صرف کرئیر متاثر ہوتا ہے بلکہ اس کے اثرات ان کی زندگیوں کے ہر پہلو میں دکھائی دیتے ہیں۔ نہ انہیں اچھی نوکری مل پاتی ہے، نہ اچھا رشتہ۔ آج کل لوگ رشتہ ڈھونڈتے ہوئے بھی کہتے ہیں کہ انہیں مخصوص جامعہ اور پروگراموں سے فارغ التحصیل افراد کا ہی رشتہ چاہیے۔

جب کسی ڈگری کے بعد نہ روزگار کی امید ہو، نہ سماجی حیثیت میں بہتری کا امکان ہو تو لوگ اس ڈگری پر اپنے لاکھوں روپے کیوں خرچ کریں گے؟

اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ پشاور یونیورسٹی میں ایک سیمسٹر کی فیس 75 ہزار روپے ہے۔ بہت سے خاندانوں کے لیے یہ فیس ادا کرنا مشکل ہے جبکہ وہ وہی ڈگری کسی پوسٹ گریجویٹ کالج سے کہیں کم پیسوں میں کر سکتے ہیں۔ اگر انہیں بھاری فیس ادا کرنی ہے تو وہ کسی زیادہ معروف یونیورسٹی میں داخلہ لینا زیادہ موزوں سمجھتے ہیں کیونکہ ایسی جامعات سے حاصل کی گئی ڈگری انہیں بہتر معاشی و سماجی فائدہ فراہم کرتی ہے۔

ایسی جامعات کے پاس مکمل شعبہ جات ہوتے ہیں جو انڈسٹری کے ساتھ روابط بناتے ہیں، اپنے طلبہ کو وہاں انٹرن شپس یا نوکریاں دلواتے ہیں۔ اپنے گریجویٹس سے رابطہ رکھتے ہیں تاکہ وہ جہاں بھی ہوں اپنی جامعہ کے لیے مزید روابط بنانے کا باعث بن سکیں۔

اس کے برعکس، پاکستان کی کئی سرکاری اور غیر سرکاری جامعات اچھی فیکلٹی ہونے کے باوجود وسائل کی کمی، اندرونی سیاست اور اقربا پروری کے باعث اپنے شعبہ جات کو مزید کمزور کر رہی ہیں۔

ان اداروں میں داخلہ لینے والے طلبہ کو ڈگری تو مل جاتی ہے تاہم انہیں اس ڈگری کا اپنے مستقبل پر کوئی روشن اثر دکھائی نہیں دیتا۔ جب جامعات طلبہ کی توقعات پر پورا نہیں اترتیں تو پھر وہی ہوتا ہے جو پشاور یونیورسٹی کے ان نو پروگراموں کے ساتھ ہوا ہے۔

ہماری جامعات کو اپنی ترجیحات ازسرِنو طے کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں نئے پروگرام متعارف کروانے یا موجودہ پروگراموں میں تبدیلی لانے کے لیے مارکیٹ کی ضرورت، طلبہ کے رجحان اور مستقبل کی پیشہ ورانہ سمتوں کومدنظر رکھنا چاہیے نہ کہ چند لوگوں کی پیشہ ورانہ ترقی کو۔

ہر نئے پروگرام سے قبل جامع تحقیق، انڈسٹری سے مشاورت، اور اس تبدیلی کے لیے درکار فیکلٹی کا انتظام کرنا چاہیے۔ اس پورے عمل میں سب سے ضروری شفافیت ہے۔ جامعات کو ہر تبدیلی کے پیچھے محرکات پر زیادہ نظر رکھنی چاہیے ورنہ ایک فرد کی سی وی بنانے کے چکر میں لاکھوں لوگوں کا مستقبل برباد ہو سکتا ہے۔

حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ تعلیم کو اپنی اولین ترجیح بنائے، اعلیٰ تعلیم کے لیے بجٹ میں خاطرخواہ اضافہ کرے اور ایسی پالیسیاں وضع کرے جن سے اداروں میں شخصی یا گروہی اجارہ داری کے بجائے شفافیت اور میرٹ کے ذریعے طلبہ کے بہتر مستقبل کی راہ ہموار ہو۔

ورنہ ہماری یونیورسٹیاں اسی طرح اپنے طلبہ کو مایوس کرتی رہیں گی اور پھر ایک وقت آئے گا جب عالمی درجہ بندیوں میں ہماری جامعات کا حال بھی ہمارے پاسپورٹ جیسا ہو گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ