پشاور یونیورسٹی: شعبہ فلسفہ کے بیچلر پروگرام میں کسی نے داخلہ نہیں لیا

ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے چار سالہ بیچلرز ڈگری پروگرام شروع کیے جانے کے بعد اب تک ایک بھی طالب علم نے پشاور یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں داخلہ نہیں لیا۔

 پشاور یونیورسٹی کی عمارت (تصویر: پشاور یونیورسٹی فیس بک پیج)

پشاور یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں چار سالہ بی ایس ڈگری پروگرام شروع ہونے کے بعد اب تک ایک بھی طالب علم نے داخلہ نہیں لیا۔

شعبہ فلسفہ کے اساتذہ کے مطابق اس کی وجہ طلبہ کی عدم دلچسپی اور اس شعبے میں ملازمتوں کے کم مواقعے ہیں۔

پشاور یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ کی بنیاد 1962 میں رکھی گئی تھی اور ابتدا میں یہاں صرف آنرز ڈگری پروگرام تھا۔

1963 میں ماسٹرز ڈگری پروگرام کا آغاز کیا گیا اور 1965 میں 22 طلبہ کا پہلا بیچ یہاں سے فارغ التحصیل ہوا۔

اس کے بعد سنہ 2000 میں اس شعبے میں ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگرام کا آغاز کیا گیا تھا اور اس وقت اس شعبے میں 19 ایم فل سکالرز زیر تعلیم ہیں لیکن چار سالہ بیچلرز ڈگری پروگرام شروع ہونے کے بعد ابھی تک ایک بھی طالب علم نے اس شعبے میں داخلہ نہیں لیا۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے پاکستان بھر کی جامعات میں دو سالہ ماسٹرز پروگرام ختم کرنے کا اعلان کیا ہے اور پاکستان میں اب بین الاقوامی طرز کا چار سالہ بیچلر ڈگری پروگرام گذشتہ کئی سالوں سے جاری ہے۔

طلبہ کی عدم دلچپسی کے حوالے سے شعبہ فلسفہ کے سربراہ پروفیسر شجاع احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ بالکل حقیقت ہے کہ بی ایس چار سالہ پروگرام میں ہمارے پاس ابھی تک ایک بھی طالب علم زیر تعلیم نہیں ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہر سال طلبہ داخلہ لینے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن یونیورسٹی قوانین کے مطابق 15 سے کم طلبہ کی کوئی کلاس بی ایس میں شروع نہیں ہوسکتی جبکہ داخلے کے خواہش مند طلبہ 15 سے کم ہوتے ہیں۔‘

پروفیسر شجاع احمد کے مطابق: ’ہم نے یونیورسٹی انتظامیہ کو درخواست بھی کی ہے کہ 15 سے کم طلبہ کی ایک بار کلاس شروع کی جائے، تو اس کے بعد طلبہ کی دلچپسی اس شعبے میں بڑھے گی اور ساتھ ہی شعبے کے اساتذہ بھی کوشش کریں گے کہ طلبہ کی دلچپسی بڑھ جائے۔‘

دوسری وجہ ڈاکٹر شجاع نے یہ بتائی کہ ’صوبے بھر کے کالجوں میں فلسفہ پڑھایا جاتا ہے اور اس میں طلبہ داخلہ بھی لیتے ہیں، لیکن جب بھی کسی کالج میں ملازمتوں کا اشتہار دیا جاتا ہے تو فلسفے کے شعبے میں ملازمتیں نہیں دی جاتیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’کالج لیول پر جب طلبہ یہ دیکھیں گے کہ اس شعبے کی ملازتیں تو آتی ہی نہیں تو طلبہ کی دلچسپی اس میں کم ہوجاتی ہے اور اسی وجہ سے یونیورسٹی لیول پر داخلہ کے لیے طلبہ نہیں آتے۔‘

پشاور یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں اس وقت چار اساتذہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور ڈاکٹر شجاع کے مطابق ان اساتذہ پر کام کا بوجھ بھی بہت زیادہ ہے کیونکہ اس وقت ایم فل کے 19 طلبہ شعبے میں زیر تعلیم ہیں۔

پروفیسر شجاع نے بتایا کہ ’طلبہ کی عدم دلچسپی اور اس شعبے کی اہمیت کے حوالے سے طلبہ میں آگاہی ضروری ہے کیونکہ دنیا بھر میں فلسفہ ایک اہم شعبہ ہے اور وہاں طلبہ اس میں دلچپسی لیتے ہیں۔‘

فلسفہ کیا ہے اور طلبہ کی دلچپسی کم کیوں ہو رہی ہے؟

امریکہ میں فلوریڈا سٹیٹ یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ کے مطابق فلسفے کا مطلب ہے ’لو آف وزڈم‘ یعنی ’حکمت کی محبت۔‘  یہ وہ تعلیم ہے جس میں انسانوں، دنیا اور دونوں کے آپس میں تعلق کو جاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی یونیورسٹی کے مطابق ’فلسفے کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ’زندگی آخر کیا ہے‘ اور انسانوں اور اس دنیا کے مابین آپس میں کیا رشتہ ہے۔ اس شعبے میں دنیا کے تمام معاملات کے پیچھے منطق کو دیکھا اور پڑھا جاتا ہے۔‘

ماہرین تعلیم کے مطابق پاکستان میں طلبہ کی دلچپسی ان شعبوں میں زیادہ ہوتی ہے، جن کی ملازمتیں زیادہ ہوں اور لوگ جاب مارکیٹ کے رجحان کو دیکھ کر اسی کے مطابق شعبے کا انتخاب کرتے ہیں۔

ڈاکٹر سہیل احمد ماہر تعلیم اور مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے شعبہ تعلیم میں پروفیسر ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بی ایس لیول پر آج کل یونیورسٹیوں میں بھی ان شعبوں کو اہمیت دی جاتی ہے، جس کی مارکیٹ ویلیو ہوتی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’جامعات اگر یہی رویہ اختیار کریں کہ مارکیٹ کو دیکھ کر اسی کی بنیاد پر شعبہ جات کو اہمیت دیں گی تو یہی ہوگا جو پشاور یونیورسٹی میں شعبہ فلسفہ کے ساتھ ہوا ہے۔‘

ڈاکٹر سہیل نے بتایا: ’فلسفے کے علاوہ بھی ایسے مختلف شعبہ جات ہیں، جو جامعات سے ختم ہونے کے قریب ہیں اور اس میں ادبیات کا شعبہ بھی شامل ہے۔ مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو صوبے کی تمام جامعات میں 90 کے قریب ہی ادبیات کے طلبہ ہیں جبکہ باقی شعبہ جات میں صرف ایک سیمسٹر میں ہی یہ تعداد ہوتی ہے۔‘

ڈاکٹر سہیل سے جب پوچھا گیا کہ جامعات کو اس مد میں کیا کرنا چاہیے تو انہوں نے بتایا کہ ’جب اس طرح اہم شعبے ختم ہونے کے قریب ہوں تو جامعات اور حکومت کو اس اہم مضمون میں وظائف اور سکالرشپس شروع کرنی چاہییں تاکہ طلبہ اس طرف راغب ہوں اور ان شعبہ جات کی ملازمتوں کی بھی تشہیر کرنی چاہیے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس