ٹیلی ویژن چینل ’ون امیریکہ نیوز‘ کے میزبان میٹ گیٹز نے جمعرات کو اس حوالے سے معذرت کی کہ ان کے شو کے ایک حصے میں، جو خواتین کی فوج میں بھرتی میں اضافے کو اجاگر کرنے کے لیے تھا، وردی میں ملبوس خواتین فوجیوں کی مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی مدد سے تیار کی گئی جعلی تصاویر استعمال کی گئیں۔
میٹ گیٹز جو سابق رپبلکن رکن کانگریس ہیں، میگا نیٹ ورک میں شامل ہیں۔ اٹارنی جنرل کے طور پر ان کی نامزدگی دیرپا ثابت نہ ہو سکی کیوں کہ ان پر جنسی بدسلوکی کے الزامات کی جانچ پڑتال دوبارہ شروع ہو گئی۔
بدھ کی رات انہوں نے محکمہ دفاع کی ترجمان کنگزلی ولسن کا انٹرویو لیا تاکہ وہ یہ بتا سکیں کہ فوجی بھرتیوں میں سال بہ سال مبینہ طور پر اضافہ ہوا۔ کنگزلی ولسن خود بھی تنازعات کا حصہ رہ چکی ہیں۔
جب کنگزلی ولسن سابقہ انتظامیہ کے مقابلے میں فوجی بھرتیوں میں ’اضافے‘ کے اعداد و شمار کے بارے میں بات کر رہی تھیں تو اس دوران فوجی وردی میں ملبوس خواتین کی تصاویر سکرین پر دکھائی گئیں اور ہر موقعے کے لیے یہ تصاویر مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار کی گئی تھیں۔
خصوصی طور پر تصاویر کے نچلے کناروں پر نظر آنے والے واٹر مارکس کی بنیاد پر (یہ معلوم ہو رہا تھا کہ) انہیں ایلون مسک کے تیار کردہ گروک نامی اے آئی چیٹ بوٹ نے بنایا تھا، جو ان کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر دستیاب ہے۔
(دریں اثنا ایسا لگتا ہے کہ ایلون مسک گروک کے لیے بڑا وفاقی معاہدہ حاصل کرنے میں ناکام ہو گئے، جب اس چیٹ بوٹ نے یہودی دشمنی پر مبنی سخت بیان جاری کیا اور خود کو ’میکا ہٹلر‘ کہا۔)
کنگزلی ولسن نے جوش سے کہا کہ ’یہ اعداد و شمار بہت شاندار ہیں۔‘ اس دوران سکرین پر مکمل طور پر جعلی تصاویر چلتی رہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’سابقہ انتظامیہ کے دور میں ہمارے پاس گذشتہ سال تقریباً 16 ہزار خواتین بھرتی ہوئیں، اب یہ تعداد 24 ہزار سے زیادہ ہے۔ یہ وزیر (دفاع) ہیگستھ اور صدر ٹرمپ کی قیادت کا ثبوت ہے۔‘
بعد میں ایک پینٹاگون کے ترجمان نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو بتایا کہ محکمہ دفاع کا ان تصاویر سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اس نے یہ تصاویر دائیں بازو کے چینل کو فراہم کیں۔ اس دوران چینل نے پس منظر میں دکھائے جانے والے ویڈیو کو گروک کے ذریعے تیار کرنے کا اعتراف کیا۔
ون امیریکہ نیوز کے ایک ترجمان نے کہا کہ ’ان تصاویر نے کمپنی کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کی، جنہیں تمام عملے پر دوبارہ نافذ کر دیا گیا ہے۔ تصحیح نشر کر دی گئی ہے۔ انتظامیہ نے اس مسئلے کو مناسب طور پر حل کرنے کے لیے اضافی اقدامات کیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگرچہ جمعرات کی رات اپنے شو کے اختتام پر میٹ گیٹز نے کنگزلی ولسن کے انٹرویو کے دوران اے آئی سے بنی جعلی تصاویر کے استعمال پر آن ایئر معذرت کی، تاہم انہوں نے اس عمل کو درست ثابت کرنے کی کوشش بھی کی۔
انہوں نے کہا: ’ہم عام طور پر حقیقی فوجی اہلکاروں کے چہرے آن ایئر دکھانے کے بارے میں کافی محتاط رہتے ہیں کیوں کہ بعض اوقات امریکہ کے دشمن، چہرہ پہچاننے والے سافٹ ویئر کو بہت ہوشیاری سے استعمال کرتے ہیں۔‘
میٹ گیٹز نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’لیکن ہم سے ایک غلطی ہو گئی۔ ہم نے خواتین فوجیوں کی اے آئی سے بنی تصاویر کو سکرین پر دکھایا اور ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ محکمہ دفاع نے ہمیں یہ تصاویر نہیں دیں۔ یہ گروک نے دیں اور ہم آئندہ بہتر فیصلہ کریں گے۔‘
میٹ گیٹز ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والی واحد شخصیت نہیں جو مصنوعی ذہانت پر اپنے حالیہ انحصار کی وجہ سے تنقید کی زد میں آئے۔
سی این این کے سابق اینکر سے آزاد صحافی بننے والے جم اکوسٹا کو 2018 کی پارک لینڈ ہائی سکول فائرنگ میں جان سے جانے والے ایک طالب علم کے اے آئی ورژن کے ساتھ انٹرویو کرنے پر شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ جم اکوسٹا نے تنقید کا جواب یہ کہہ کر دیا کہ مقتول کے خاندان کی ان کے بیٹے کو یاد رکھنے میں مدد کرنا ان کے لیے ’اعزاز‘ تھا۔
نیوز نیشن کے اینکر کرس کومو کا گذشتہ ہفتہ بھی سخت مذاق اڑایا گیا جب وہ رکن پارلیمنٹ الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز (ڈیموکریٹ نیویارک) کی ایک ڈیپ فیک ویڈیو کو سچ سمجھ بیٹھے، جس میں اس ترقی پسند قانون ساز کو بظاہر سڈنی سوینی کے ’گڈ جینز‘ اشتہار پر ایوان نمائندگان کے فلور پر غصے بھرا خطاب کرتے دکھایا گیا۔
اگرچہ بعد میں انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ انہوں نے سادہ لوحی سے جعلی ویڈیو کو اصل سمجھ لیا لیکن الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز کے معاملے پر اینکر کرس کومو کو آن لائن اپنے پرائم ٹائم شو کے دوران بھی مزید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
ون امیریکہ نیوز گذشتہ چند برسوں میں عملاً ختم ہونے کے دہانے پر دکھائی دیا جب اس کے تمام کیبل اور سیٹلائٹ فراہم کنندگان نے، نیٹ ورک کے سازشی نظریات اور انتخابی نتائج سے انکار کو اندھا دھند اپنانے کے پیش نظر اسے اپنے پلیٹ فارمز سے ہٹا دیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بے بنیاد دعوے کہ 2020 کے صدارتی انتخاب میں ’دھاندلی‘ کی گئی، کو طوطے کی طرح دہرانے کے نتیجے میں چینل کو ووٹنگ سافٹ ویئر کمپنیوں اور انتخابی کارکنوں کی جانب سے ہتک عزت کے متعدد مقدمات کا سامنا کرنا پڑا، جن میں سے کچھ مقدمات نیٹ ورک پہلے ہی نمٹا چکا ہے۔
تاہم ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی کے بعد کم دیکھا جانے والا یہ چینل ناظرین کی تعداد میں اضافے کے لیے تیار دکھائی دیتا ہے۔ قبل ازیں رواں سال ٹرمپ کی سینیئر مشیر کیری لیک، جنہیں ریاستی فنڈ سے چلنے والے وائس آف امریکہ کو ختم کرنے کا کام سونپا گیا، نے اعلان کیا کہ انہوں نے ون امیریکہ نیوز کے ساتھ یہ معاہدہ کر لیا ہے کہ وائس آف امریکہ کی نشراتی لہروں پر اس کی ’نیوز فیڈ سروسز‘ نشر کی جائیں گی۔
© The Independent