پنجاب حکومت نے سکولوں میں میٹرک کی سطح پر طلبہ کو فنی تعلیم فراہم کرنے کے لیے ’میٹرک ٹیک‘ پروگرام کا آغاز کیا ہے، جس پر عمل درآمد کی تیاریاں جاری ہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے اعلان کے مطابق یہ منصوبہ بنیادی طور پر میٹرک ٹیک، انٹر ٹیک اور ’ہنر مند پنجاب‘ جیسے پروگراموں پر مشتمل ہے، جن کا مقصد طلبہ کو عملی ہنر سے آراستہ کرنا ہے۔
مالی سال 26-2025 کے بجٹ میں فنی تعلیم کے لیے 28 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی رجسٹریشن کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔
صوبائی سیکریٹری تعلیم خالد نذیر کے مطابق لاہور سمیت صوبے بھر میں ’میٹرک ٹیک‘ پر عمل درآمد جاری ہے اور اب تک تقریباً 50 ہزار طلبہ رجسٹر ہو چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ نویں اور دسویں جماعت کے نصاب میں فیشن ڈیزائننگ، آئی سی ٹی، ہیلتھ سائنسز اور زراعت جیسے مضامین شامل کیے گئے ہیں، جن کی رجسٹریشن تعلیمی بورڈز میں مکمل ہو چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ ان مضامین کی کتابیں فراہم کرے گا جبکہ تجربات کے لیے لیبارٹری اور دیگر سہولیات بھی فراہم کی جائیں گی۔
’یہ مضامین لازمی مضامین کے ساتھ بطور اختیاری پڑھائے جائیں گے تاکہ طلبہ میٹرک ہی سے پیشہ ورانہ مہارت حاصل کر سکیں۔‘
تاہم پنجاب ٹیچرز یونین کے جنرل سیکریٹری رانا لیاقت کہتے ہیں کہ یہ مضامین پہلے بھی نصاب کا حصہ تھے، اب ان کے نام اور تدریسی طریقہ کار کو تبدیل کر کے نئے پروگرام کے تحت شامل کیا گیا ہے۔
’مثال کے طور پر بیالوجی کی جگہ ہیلتھ سائنسز، ہوم اکنامکس کی جگہ فیشن ڈیزائننگ اور کمپیوٹر سائنس کو آئی سی ٹی کا نام دے دیا گیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماہر تعلیم رسول بخش رئیس نے اس اقدام کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں نصاب کو شروع ہی سے عملی اور فنی بنایا جانا چاہیے تھا کیونکہ موجودہ نظام میں طلبہ ڈگریاں حاصل کرنے کے باوجود عملی میدان میں مہارت سے محروم رہ جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کی کامیابی کے لیے صرف تھیوری نہیں بلکہ عملی تربیت، اساتذہ کی دستیابی اور والدین کو فنی تعلیم کی اہمیت پر قائل کرنا ضروری ہوگا۔
’جب تک سکولوں سے فارغ التحصیل طلبہ اپنی مہارت کے ذریعے مارکیٹ میں اعتماد نہیں جیتیں گے، کمپنیاں یا ادارے انہیں ترجیح نہیں دیں گے۔‘
رانا لیاقت نے خبردار کیا کہ والدین کی بڑی تعداد اپنے بچوں کو ڈاکٹر یا انجینیئر بنانا چاہتی ہے، اس لیے وہ میٹرک کی سطح پر فنی تعلیم کی طرف کم ہی مائل ہوں گے۔
ان کے مطابق مطلوبہ نتائج کے لیے ٹیوٹا کی طرز پر ایک منظم ادارہ جاتی ڈھانچہ تشکیل دینا ہوگا کیونکہ صرف نصاب میں تبدیلی یا محدود پریکٹیکل ورک سے مقصد حاصل ہونا مشکل ہے۔