'پشاور یونیورسٹی میں10 سال نوکری کی، اب نکال دیا'

سلیم خان گزشتہ 10 سال سے پشاور یونیورسٹی میں کلرک کی پوسٹ پر ملازمت کر رہے ہیں لیکن پچھلے تین  مہینوں سے یونورسٹی انتظامیہ نے ان کی تنخواہ روک دی ہے۔

(سوشل میڈیا)

سلیم خان گزشتہ 10 سال سے پشاور یونیورسٹی میں کلرک کی پوسٹ پر ملازمت کر رہے ہیں لیکن پچھلے تین  مہینوں سے یونورسٹی انتظامیہ نے ان کی تنخواہ روک دی ہے۔  تاہم وہ اب بھی جس شعبے میں ملازم ہیں وہاں بغیر تنخواہ کے آکر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

سلیم نے بتایا، ' مہنگائی کے اس دور میں جب ایک دن بھی تنخواہ لیٹ ہو جائے تو گھر کے اخراجات پورے کرنے میں مسائل سامنے آجاتے ہیں۔ میری تنخواہ گزشتہ چھ مہینوں سے بند ہے اور یونیورسٹی انتظامیہ میری 13 سالہ خدمات کو بھی نہیں  دیکھتی۔'

انھوں نے بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے تو لاکھوں نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب سب کچھ اس کے الٹ جا رہا ہے اور پہلے سے کئی سالوں تک ملازمت کرنے والے ملازمین کو نکال رہے ہیں۔

سلیم کی طرح 600 سے زائد پشاور  یونیورسٹی کے ملازمین ہیں جن کی تنخواہیں اس وجہ سے روکی گئی ہیں کیونکہ یونیورسٹی انتظامیہ کے  مطابق یہ کنٹریکٹ ملازمین تھے اور  انھوں نے ان کے کنٹریکٹ کو ختم کیا ہے اور اب  نئے سرے سے بھرتیاں کریں گے۔

اسی وجہ سے یہ ملازمین گزشتہ چھ مہینوں سے یونیورسٹی کے اندر احتجاج بھی کر رہے ہیں جن میں ایسے ملازمین بھی شامل ہے جنھوں نے تین سال سے لے کر 15 سال تک اسی یونیورسٹی میں ملازمت کی ہیں لیکن اب ان کا کنٹریکٹ بھی ختم کر دیا گیا ہے۔

ان ملازمین میں کلاس فورملازمین  کے ساتھ 17 یونیورسٹی کے اساتذہ بھی شامل ہیں۔ ان اساتذہ کا کنٹریکٹ جولائی 2020 میں ختم کردیا گیا ہے اور وہ بھی تنخواہ کی بندش اور ریگولرائز ہونے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔

ان اساتذہ میں ایک ڈاکٹر نگینہ خانم بھی ہیں جو پشاور یونیورسٹی کے شعبہ پشتو میں  کنٹریکٹ پر 13 سال خدمات سر انجام دے چکی ہیں۔ ڈاکٹر نگینہ کا کنٹریکٹ اب ختم ہے لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے ان کو بطور وزٹنگ لیکچرر آنے کی اجازت دی ہے اور ان کو فی کلاس پیسے دیے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر نگینہ نے انڈپینڈٹ اردو کو بتایا کہ انہیں سمجھ ہی نہیں آرہی ہے  کہ 13 سال انھوں نے پشتو شعبہ میں بطور استاد بچوں کو پڑھایا لیکن اب اتنے سالوں بعد ان کا کنٹریکٹ ختم کردیا گیا ہے اور ریگولرائز کرنے میں یونیورسٹی انتظامیہ سیریس نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ وہ اپنے مستقبل کے لیے پریشان ہیں کیونکہ انھوں نے کیریر  کے 13 سال اس یونیورسٹی میں گزارے اور اب ہمیں آگے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا ہوگا۔

ڈاکٹر نگینہ کو  بھی کلاس فور ملازمین کی طرح معاشی مسائل کا سامنا ہے کیونکہ  تین مہینوں سے ان کی تنخواہ بھی بند کی گئی ہے ۔ وہ کہتی ہیں، ' گھر کے اخراجات اس دور میں چلانا تنخواہ کے بغیر کیسے ممکن ہے۔'

تاہم کلاس فور ملازمین اور  اساتذہ کا مسئلہ تھوڑا  مختلف ہے۔ پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر فضل ناصر نے  انڈپنیڈنٹ اردو کو بتایا کہ یونیورسٹی کے 17 اساتذہ جن میں 12 لیکچرز اور باقی اسسٹنٹ پروفیسر شامل ہیں کنٹریکٹ پر تھے جن کے کنٹریکٹ ختم کردیے گئے  ہیں  تاہم اس سارے مسئلے میں صوبائی اسمبلی زیادہ ذمہ دار ہے۔

انھوں نے بتایا کہ صوبائی اسمبلی نے 2016 میں‘خیبر پختنو نخوا یونیورسٹیز ایکٹ 2016' میں یہ ترمیم کی تھی کہ یونیورسٹی میں ملازم تین سال سے زائد کنٹریکٹ پر  نہیں  رہے گا اور اس کو یا تو ریگولر کردیا جائے گا اور یا اس کا کنٹریکٹ ختم کردیا جائے گا۔

انھوں نے بتایا، ' اسی ترمیم کی وجہ سے یہ مسئلہ سامنے آیا ہے اور ان اساتذہ کے کنٹریکٹ ختم کردیے گئے باوجود اس کے کہ ان اساتذہ نے کئی سال اس یونیورسٹی میں ملازمت کی ہے۔یہ ترمیم بظاہر ملازمین کے فائدے کے لیے کی گئی لیکن گورنر کی طرف سے بھرتیوں پر پابندی کی وجہ سے اس سے ملازمین متاثر ہوئے۔  '

فضل ناصر نے بتایا کہ ان کنٹریکٹ اساتذہ کو ریلگولر کرنے کے لیے یونیوسٹی نے پوسٹ مشتہر کی تھی تاہم صو بائی  گورنر  نے یونیورسٹیوں میں  بھرتیوں  پر پابندی عائد کی تھی جس کی وجہ سے یہ مسئلہ  کھڑا ہوگیا لیکن اب اس پابندی کو ہٹایا گیا ہے اور اب سب کچھ یونیورسٹی انتظامیہ کے ہاتھ میں ہے۔

ڈاکٹر ناصر نے بتایا ، ' ان اساتذہ کی سیلیکشن بورڈ یعنی انٹرویو بھی کیے گئے ہیں  اور ان کو ریلگولر کردیا جائے گا لیکن اس مد میں وائس چانسلر نے سنڈیکیٹ کی میٹنگ بلائی تھی جس میں اس کی منظوری دینے تھی وہ بغیر کسی وجہ سے کینسل کردیا گیا۔ اب اس مسئلے کوحل کرنے میں یونیورسٹی انتظامیہ سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں۔ '

پشاور یونیورسٹی انتظامیہ کا موقف

پشاور یونیورسٹی کے ترجمان محمد نعمان نے انڈپنڈنٹ اردوکو بتایا کو یونیورسٹی نے ان ملازمین کی کنٹریکٹ یونیورسٹیز ایکٹ کے قوانین کے رو سے ختم کی ہے جس میں واضح لکھا گیا ہے کہ تین سال سے زائد کوئی ملازم کنٹریکٹ پر کام نہیں کرے گا ۔

نعمان نے  بتایا کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یونیورسٹی میں ان 600 ملازمین میں 400 سرپلس ملازمین ہیں جس کی وجہ سے یونیورسٹی پر بوجھ بھی پڑا ہے  اور ان سرپلس ملازمین کو پچھلے ادوار میں  سفارش پر بھرتے کیے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

'اب یونیورسٹی نے 200 پوسٹ کے لیے انٹرویوز کیے ہیں اور اس میں ان پرانے ملازمین کے بھی انٹرویوز کنڈکٹ کردیے ہیں جس میں سے کچھ کو ان 200 پوسٹس پر دوبارہ تعینات کیا جائے گا۔تاہم جو پشاور سے باہر کے اضلاع کے ہیں قانون کے مطابق وہ کلاس فور ملازم بننے کے اہل نہیں ہوں گے کیونکہ کلاس فور ملازم اپنے متعلقہ ضلع میں ہی بھرتی کیا جا سکتا ہے ۔ '

نعمان سے جب پوچھا گیا کہ کچھ ملازمین نے تو پانچ اور دس سال بھی کام کیا ہے تو ان کا کیا بنے گا، اس کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ  جتنے بھی کنٹریکٹ پر ملازمین تھے ان کا کنٹریکٹ ختم ہے چاہے ملازم نے جتنے سال بھی یونیورسٹی میں گزارے ہوں اور اب نئے سرے سے 200 پوسٹوں پر بھرتیاں کی جائیں گی۔

تاہم ابھی تک ان نئی بھرتیوں میں کوئی پیش رفت اس وجہ سے نہیں ہوئی ہے کیونکہ جن ملازمین کے کنٹریکٹ ختم کیے گئے ہیں انھوں نے عدالت میں پٹیشن دائر کی ہے اور عدالت نے ان پوسٹوں پر سٹے دے دیا ہے۔

اس سلسلے میں صوبائی مشیر اطلاعات و اعلی تعلیم کامران خان بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پشاور یونیورسٹی کو پہلے سے 500 ملین روپے خسارے کا سامنا ہے جس میں 134 ملین یعنی تقریبا 13 کروڑ روپے ان سرپلس ملازمین کے تنخواہوں کی مد میں جاتے ہیں۔

کامران نے بتایا،’ایک تو یہ کیس اب عدالت میں ہے کیونکہ ان ملازمین نے عدالت میں کیس دائر کیاہے تاہم یونیورسٹیز ایکٹ میں ایسی کوئی شق موجود نہیں ہے جس کے رو سے ان ملازمین کو کوئی ریلیف مل سکے۔ ‘

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس