پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ہفتے کو انڈین فضائیہ کے سربراہ کے ان دعوؤں کو ’ناقابل یقین‘ اور ’مضحکہ خیز‘ قرار دے کر مسترد کر دیا جن میں کہا گیا تھا کہ مئی میں دونوں ملکوں کے درمیان جھڑپوں کے دوران انڈیا نے پاکستان کے پانچ لڑاکا طیارے اور ایک فوجی طیارہ مار گرایا تھا۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق انڈین فضائیہ کے سربراہ امر پریت سنگھ نے آج بنگلورو میں ایک میموریل لیکچر کے دوران دعویٰ کیا کہ انڈین فورسز نے مئی میں پاکستان کے پانچ جنگی اور ایک فضائی نگرانی کرنے والے طیارے کو مار گرایا تھا۔
یہ پہلا موقع ہے جب کسی بھی انڈین فوجی سربراہ نے ’آپریشن سندور‘ نامی فوجی کارروائی میں پاکستان کے طیارے تباہ کرنے کا دعویٰ کیا۔ تاہم اس دعوے کے ساتھ کوئی ثبوت نہیں پیش کیا گیا۔
خواجہ آصف نے انڈیا کے نئے دعوے پر ایکس پر ایک ٹویٹ میں ردعمل دیتے ہوئے لکھا ’انڈین فضائیہ کے سربراہ کی جانب سے آپریشن سندور کے دوران پاکستانی طیاروں کی مبینہ تباہی کے بارے میں تاخیر سے کیے گئے بیانات جتنے ناقابل یقین ہیں، اتنے ہی غلط وقت پر بھی ہیں۔‘
پاکستانی وزیر دفاع نے اپنی طویل ٹویٹ میں مزید لکھا کہ لائن آف کنٹرول پر بھی انڈین مسلح افواج کو غیر متناسب طور پر بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔
“The belated assertions made by the Indian Air Force Chief regarding alleged destruction of Pakistani aircraft during Operation Sindoor are as implausible as they are ill-timed. It is also ironic how senior Indian military officers are being used as the faces of monumental…
— Khawaja M. Asif (@KhawajaMAsif) August 9, 2025
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈیا نے 22 اپریل، 2025 کو اپنے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے کا الزام اسلام آباد پر عائد کرتے ہوئے چھ اور سات مئی کی درمیانی شب ’آپریشن سندور‘ کے نام سے پاکستان کے مختلف مقامات پر حملے کیے تھے۔
پاکستان پہلگام حملے میں ملوث ہونے کے انڈین الزام کی تردید کرتا ہے۔
پاکستان میں انڈیا کے حملوں کے بعد دونوں فریقوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پر شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس کے بعد ایک دوسرے کے علاقوں میں میزائل اور ڈرون حملے کیے گئے، جن میں بنیادی طور پر فوجی تنصیبات اور ایئر بیسز کو نشانہ بنایا گیا۔
انڈین فضاییہ کے سربراہ امر پریت سنگھ نے آج دعویٰ کیا کہ ’ہم پاکستانی جنگی طیاروں کے مار گرائے جانے کی تصدیق کر سکتے ہیں اور ایک بڑا طیارہ، جو یا تو الیکٹرانک انٹیلیجنس (ایلنٹ) یا (ایواک) ہو سکتا ہے جسے تقریباً 300 کلومیٹر دور سے نشانہ بنایا گیا۔
’یہ دراصل سب سے طویل فاصلے سے کیا جانے والا ریکارڈ شدہ زمین سے فضا میں مار کرنے والا حملہ ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ آپریشن کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ سیاسی عزم تھا اور یہ بھی دعویٰ کیا کہ اگر کوئی رکاوٹ تھی تو وہ خود ساختہ تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’کامیابی کی بڑی وجہ سیاسی عزم تھا۔ ہمیں بالکل واضح احکامات دیے گئے تھے۔ ہم پر کوئی پابندی نہیں تھی اور اگر کوئی رکاوٹ تھی تو وہ ہماری اپنی تھی۔ ہم نے خود فیصلہ کیا کہ اسے کتنا بڑھانا ہے۔
’ہمیں منصوبہ بندی اور کارروائی کی پوری آزادی تھی۔ ہمارے حملے سوچ سمجھ کر کیے گئے کیونکہ ہم معاملے میں سنجیدہ رہنا چاہتے تھے، تینوں افواج کے درمیان ہم آہنگی تھی، چیف آف ڈیفنس سٹاف کا عہدہ اہم ثابت ہوا، انہوں نے ہمیں یکجا کیا۔
’نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر نے بھی تمام اداروں کو یکجا کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔‘
انڈیا کے چھ طیارے گرائے، ایک میراج بھی شامل: پاکستان فوج
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل احمد شریف نے انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ’ہم اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ پاکستان نے انڈیا کے چھ طیارے گرائے ہیں جن میں ایک میراج 2000 بھی شامل ہے۔‘ pic.twitter.com/B0ECwEpfFb— Independent Urdu (@indyurdu) May 18, 2025
انڈین فضائیہ کے سربراہ نے ایس-400 میزائل نظام کو ’گیم چینجر‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انڈیا کے فضائی دفاعی نظام نے شاندار کارکردگی دکھائی۔
ان کے بقول ’ہمارے فضائی دفاعی نظام نے شاندار کام کیا۔ ایس-400 نظام، جو ہم نے حال ہی میں خریدا ہے، ایک گیم چینجر ثابت ہوا ہے۔
’اس نظام کی رینج نے ان کے طیاروں کو ان کے ہتھیاروں، جیسے لانگ رینج گلائیڈ بم، استعمال کرنے سے روک دیا کیونکہ وہ اس نظام کو توڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔‘
انہوں نے کہا کہ آپریشن میں انڈیا کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے درست ہتھیار استعمال کیے گئے اور شہری اموات سے بچنے پر خصوصی توجہ دی گئی۔
بہاولپور پر حملے کے حوالے سے اے پی سنگھ نے پہلے اور بعد کی تصاویر دکھاتے ہوئے کہا ’یہاں بمشکل کوئی اضافی نقصان ہوا۔ یہاں قریبی عمارتیں تقریباً محفوظ ہیں جن کی ہمارے پاس نہ صرف سیٹلائٹ تصاویر تھیں بلکہ مقامی میڈیا سے وہاں ہونے والی اندرونی تباہی کی تصاویر بھی موجود تھیں۔‘