پاکستان نے آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان امریکہ میں ہونے والے امن معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے ہفتے کو کہا ہے کہ یہ معاہدہ خطے میں امن، استحکام اور تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پیغام شیئر کیا جس میں انہوں نے اس معاہدے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سہولت کاری کو سراہا اور آذربائیجان کے صدر الہام علیوف کی امن پسندی کی تعریف کی۔
شہباز شریف نے لکھا: ’پاکستان نے جمہوریہ آذربائیجان اور جمہوریہ آرمینیا کے درمیان وائٹ ہاؤس سمٹ میں امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کی سرپرستی میں طے پانے والے تاریخی امن معاہدے کا خیرمقدم کرتا ہے۔
’یہ سنگ میل جنوبی قفقاز کے خطے میں امن، استحکام اور تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز ہے، ایک ایسا خطہ جو دہائیوں سے تنازعات اور انسانی المیوں کا شکار رہا ہے۔‘
انہوں نے مزید تحریر کیا: ’پاکستان ہمیشہ برادر ملک آذربائیجان کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور تاریخ کے اس قابل فخر لمحے میں بھی ان کے ساتھ ہے۔
’ہم امریکہ کے اس سہولت کار کردار کو بھی سراہتے ہیں جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں ادا کیا گیا اور جس کے نتیجے میں دونوں فریقین ایک میز پر آئے اور ایسا معاہدہ طے پایا جو تجارت، رابطہ کاری اور علاقائی ہم آہنگی کے نئے مواقع فراہم کرتا ہے۔ ہماری امید ہے کہ یہ مکالمے کی روح ان دیگر خطوں کے لیے مثال بنے گی جو طویل المدتی تنازعات کا شکار ہیں۔‘
امن معاہدہ اور ’ٹرمپ نہیں تو امن انعام کا حقدار کون؟‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی میزبانی میں آرمینیا اور آذربائیجان نے جمعے کو تین دہائیوں سے جاری تنازع ختم کرنے کا اعلان کیا اور امن معاہدے پر دستخط کیے۔
وائٹ ہاؤس میں دستخطی تقریب کے دوران دونوں ممالک نے سفارتی، تجارتی اور سفری تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا جبکہ صدر ٹرمپ نے اپنی پچھلی سفارتی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے کمبوڈیا، تھائی لینڈ کے ساتھ روایتی حریف انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں اپنے کردار کا ذکر کیا۔
آرمینیا کے وزیرِاعظم نیکول پشینیان اور آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے اس موقعے پر صدر ٹرمپ کی ثالثی کی کوششوں پر انہیں نوبیل امن انعام کا حقدار قرار دیا۔
سوویت یونین سے آزادی حاصل کرنے والی دو سابق ریاستوں آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان 1980 کی دہائی سے سرحدی علاقے نگورنو کاراباخ پر قبضے کا تنازع چل رہا تھا۔
یہ علاقہ عالمی سطح پر آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے مگر اکثریتی آبادی نسلی آرمینیائی ہے۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان اس مسئلے پر کئی جنگیں لڑی گئیں۔
صدر ٹرمپ نے تقریب میں کہا کہ دونوں سابق سوویت ریاستیں ’ہمیشہ کے لیے تمام لڑائی روکنے، تجارت، سفر اور سفارتی تعلقات بحال کرنے اور ایک دوسرے کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرنے‘ پر متفق ہو گئی ہیں تاہم معاہدے کی تفصیلات اور اس کی قانونی حیثیت فی الحال واضح نہیں ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ اس معاہدے کے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان ’بہترین تعلقات‘ ہوں گے اور اگر کوئی تنازع ہوا تو ’وہ مجھے فون کریں گے اور ہم معاملہ سلجھا لیں گے۔‘
مسیحی اکثریتی آرمینیا اور مسلم اکثریتی آذربائیجان کے درمیان سرحد اور ایک دوسرے کے علاقوں میں نسلی اکثریت رکھنے والے خطوں کی حیثیت پر دہائیوں سے تنازع چلا آ رہا تھا۔ دونوں ممالک دو بار متنازع کاراباخ خطے پر جنگ لڑ چکے ہیں جسے آذربائیجان نے 2023 کی فوجی کارروائی میں آرمینیائی فورسز سے واپس لے لیا تھا جس کے بعد ایک لاکھ سے زیادہ نسلی آرمینیائی وہاں سے نکل گئے۔
تقریب میں علیوف اور پشینیان نے ٹرمپ کی موجودگی میں مصافحہ کیا اور پھر تینوں نے ایک دستاویز پر دستخط کیے جسے وائٹ ہاؤس نے ’مشترکہ اعلامیہ‘ قرار دیا۔
علیوف نے اسے ’تاریخی معاہدہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دو ’ایسے ممالک کے درمیان معاہدہ ہے جو تین دہائیوں سے زیادہ عرصے تک جنگ میں رہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’آج ہم قفقاز خطے میں امن قائم کر رہے ہیں۔‘
علیوف نے پشینیان کے ساتھ مل کر نوبیل کمیٹی کو ٹرمپ کے لیے امن انعام کی سفارش بھیجنے کی پیشکش کی۔ ان کا کہنا تھا، ’اگر صدر ٹرمپ نہیں تو اور کون نوبیل امن انعام کا حقدار ہے؟‘
علیوف نے ٹرمپ کا آذربائیجان کے ساتھ امریکی فوجی تعاون پر عائد پابندیاں ہٹانے پر بھی شکریہ ادا کیا، جس کا اعلان جمعے کو کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آرمینیا کے وزیراعظم پشینیان نے کہا کہ ’امن معاہدے کی ابتدائی منظوری ہمارے ممالک کے درمیان عشروں پر محیط تنازع کے خاتمے اور ایک نئے دور کے آغاز کا راستہ ہموار کرے گی۔‘
ان کے بقول یہ ’اہم پیش رفت صدر ٹرمپ کے بغیر ممکن نہ تھی اور وہ نوبیل انعام کے مستحق ہیں۔‘
معاہدے میں ایک ٹرانزٹ راہداری کے قیام کی شق بھی شامل ہے جو آرمینیا سے گزر کر آذربائیجان کو اس کے نخشوان کے علاقے سے ملائے گی، جو باکو کا پرانا مطالبہ تھا۔
امریکہ کو اس راہداری میں ترقیاتی حقوق حاصل ہوں گے۔
ترکی، جو آذربائیجان کا دیرینہ حامی ہے، نے دونوں ممالک کے درمیان ’پائیدار امن کے قیام کی جانب پیش رفت‘ کا خیرمقدم کیا ہے۔
ٹرمپ کا آرمینیا، آذربائیجان امن معاہدے پر ایک بار پھر انڈیا پاکستان ثالثی کا ذکر
جمعے کو وائٹ ہاؤس میں آذربائیجان کے صدر الہام علیوف اور آرمینیا کے وزیرِاعظم نیکول پشینیان کے ساتھ سہ فریقی سربراہی اجلاس کے دوران صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا: ’تجارت کے ذریعے میں نے انڈیا اور پاکستان کے معاملات طے کروا دیے۔ میرے خیال میں یہ تجارت ہی تھی جس نے سب سے زیادہ کردار ادا کیا۔‘
ٹرمپ نے کہا کہ مئی میں انہوں نے انڈیا اور پاکستان کی قیادت کو فون کر کے واضح کیا تھا کہ وہ ایسے ممالک کے ساتھ معاملہ نہیں کرنا چاہتے جو خود کو اور ممکنہ طور پر دنیا کو تباہ کرنے کی کوشش کریں، خاص طور پر جب وہ ایٹمی طاقت رکھتے ہوں۔
ان کے بقول پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع کا حل ’ایک بڑا معاملہ‘ تھا کیونکہ یہ جلد ہی ایٹمی جنگ میں تبدیل ہو سکتا تھا۔
انہوں نے کہا: ’وہ ایک بڑا کام تھا، آپ بھی مانیں گے۔ وہ ایک دوسرے کے خلاف جا رہے تھے، ایک دوسرے کے طیارے مار گرائے گئے تھے، پانچ یا چھ طیارے اس آخری جھڑپ میں تباہ ہوئے تھے اور اس کے بعد یہ سب مزید بڑھ سکتا تھا اور بہت، بہت بُرا ہو سکتا تھا۔‘