پاکستان، ترکی اور آذربائیجان کا سہ ملکی فوجی اتحاد کیا ہے؟

اربوں ڈالر کے منصوبے، مشترکہ جنگی جہاز کی تیاری اور دفاعی اتحاد کا قیام۔ پاکستان ترکی اور آذربائیجان کے بڑھتے روابط کا جائزہ۔

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف ترکی اور آذربائیجان کے صدور کے ہمراہ، 28 مئی 2025 کو آذربائیجان کے یوم آزادی کے حوالے سے لاچین شہر میں منعقدہ تقریب میں شریک ہوئے (وزیراعظم ہاؤس)

آذربائیجان کے یوم آزادی کے موقعے پر صدر الہام علیوف کی میزبانی میں پاکستان اور ترکی کے وزیراعظم اکٹھے ہوئے جہاں انہوں نے مشترکہ طور پر ایک فوجی اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا۔

اس اعلان کے لیے لاچن شہر کا انتخاب بھی ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ نگورنو کاراباخ کے جن تین شہروں کا قبضہ 2022 میں آذربائیجان نے واپس لیا تھا ان میں لاچن بھی شامل تھا۔ اس کانفرنس میں آذربائیجان نے نہ صرف ترکی اور پاکستان کے ساتھ فوجی اتحاد کے قیام کا اعلان کیا بلکہ اس نے ترکی میں 20 ارب ڈالر اور پاکستان میں دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان بھی کیا۔

تینوں ممالک معاشی اور فوجی حوالوں سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جن کی مجموعی آبادی 35 کروڑ ہے اور ان کی معیشت کا حجم 1500 ارب ڈالر ہے۔

تین بھائی، ایک قوم

تاریخی اور تہذیبی طور پر تینوں ممالک کے درمیان بہت سے مشترکات ہیں جنہیں اب ایک نئے فوجی اتحاد میں بدلا جا رہا ہے۔ حالیہ پاک انڈیا جنگ میں بھی وہ دو ممالک جو کھل کر پاکستان کے ساتھ کھڑے تھے ان میں ترکی اور آذربائیجان شامل تھے۔

آذربائیجان نے جب 1991 میں روس سے آزادی کا اعلان کیا تھا تو اسے تسلیم کرنے والے ممالک میں ترکی پہلے اور پاکستان دوسرے نمبر پر تھا۔ آرمینیا نے آذربائیجان کی آزادی کے فوراً بعد نگورنو کاراباخ پر قبضہ کر لیا تھا جسے آذربائیجان نے 2023 میں واپس لے لیا جس کے لیے فیصلہ کن کردار ترکی اور پاکستان کی فوجی امداد نے ادا کیا تھا۔

اس کے جواب میں آذربائیجان ضرورت کے ہر موقعے پر پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ جس طرح مسئلہ کشمیر پر ترکی کے صدر اردوان ہمیشہ آواز بلند کرتے ہیں اسی طرح پاکستان اورآذربائیجان قبرص کے مسئلے پر ترکی کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔

ستمبر2021 میں تینوں ممالک کی مشترکہ فوجی مشقیں بھی ہو چکی ہیں جنہیں ’تین بھائی‘ کا نام دیا گیا تھا۔

پاکستان اسلحے کی درآمد میں دنیا میں دسویں نمبر پر ہے اور حالیہ برسوں میں چین کے بعد پاکستان سب سے زیادہ ا سلحہ ترکی سے ہی درآمد کر رہا ہے جن میں بحریہ کے جہاز، بم، میزائل اور ڈرون شامل ہیں۔

ترکی اور پاکستان دونوں امریکی اسلحے کے بڑے خریداروں میں سے تھے لیکن گذشتہ ڈیڑھ دو دہائیوں سے امریکہ نے دونوں ممالک کو اسلحے کی فروخت روک رکھی ہے جس کی ایک وجہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو فوجی برتری دلوانا بھی ہے جس کے جواب میں ترکی نے روس سے ایس 400 میزائل سسٹم خریدا تو پاکستان نے امریکہ کی بجائے چینی اسلحہ خریدنا شروع کر دیا۔ اب تینوں ممالک مل کر پانچویں نسل کے جدید لڑاکا طیارے ’قان‘ کی تیاری میں مصروف ہیں۔

گذشتہ پانچ سالوں میں آذربائیجان کو ترکی کے ہتھیاروں کی فروخت میں پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آذربائیجان کے صدر حیدر علیوف فاؤنڈیشن نے 2000 سے پاکستان میں فلاحی منصوبے بھی شروع کر رکھے ہیں جن کی براہ راست نگرانی خاتون اول میریبان علیوف کر رہی ہیں، جو پاکستان میں تعلیم، ماحول اور صحت کے شعبوں کئی منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔

پاکستان، ترکی اور آذربائیجان تینوں ممالک صدیوں پرانی شاہراہِ ریشم کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ذریعے تینوں ممالک میں مزید مواقع پیدا ہو رہے ہیں جس سے اقتصادی ترقی کے نئے راستے کھلیں گے۔

پاکستان اور آذربائیجان کے گہرے تعلقات کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے آذربائیجان کے حریف آرمینیا کو تسلیم نہیں کیا۔ 2020 میں آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان 44 روزہ جنگ جس کے نتیجے میں آذربائیجان نے نگورنو کاراباخ کے علاقے واپس لیے تھے، اس میں پاکستان اور ترکی کی فوجی مدد کا کردار کلیدی نوعیت کا تھا ترکی کے TB-2 ڈرونز اس جنگ میں سب سے مؤثر ہتھیار ثابت ہوئے تھے۔

انڈیا نے جب آرٹیکل370 کے ذریعے کشمیر کے متنازعہ علاقے کو ضم کر لیا تو اس کے خلاف بھی طیب ارددوغان نے اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں بھرپور احتجاج کیا تھا۔

جے ایف 17 تھنڈر کی آذربائیجان کو فروخت

پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان بڑھتے ہوئے فوجی تعاون کا ایک اور ثبوت پاکستان اور چین کی جانب سے مشترکہ طور پر تیار کردہ طیارہ جے ایف 17 تھنڈر بلاک تھری کی فروخت بھی ہے۔

آذربائیجان نے شروع میں 16 طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا تھا مگر حالیہ پاک انڈیا جنگ میں ان طیاروں کی بےمثال کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اس نے یہ تعداد بڑھا کر 50 کر دی ہے جس سے پاکستان کو چار سے پانچ ارب ڈالر حاصل ہو ں گے۔ یہ 4.5 جنریشن لڑاکا طیارہ ہے جس کی قیمت اپنے مد مقابل طیاروں کے مقابلے میں کم مگر اس کی افادیت زیادہ ہے۔

آذربائیجان کو فروخت کیے جانے والے طیاروں کو ترکی میں تیار کردہ میزائلوں اور ایوانکس سے لیس کیا جائے گا۔ جے ایف 17 تھنڈر طیاروں کی افادیت حالیہ پاک انڈیا جنگ میں پوری طرح ابھر کر سامنے آئی ہے جس کے بعد کئی ممالک کی اس کی خریداری میں دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں۔

 قان کی تیاری میں تینوں ممالک کی شراکت داری

ترکی پانچویں نسل کے جنگی طیارے ’قان‘ کی تیاری میں مصروف ہے جس کے لیے اسے پاکستان اور آذربائیجان کی بھرپور مالی اور فنی مدد حاصل ہے۔ ترکی کے پاس امریکی ساختہ ایف 16 طیارے موجود ہیں جنہیں وہ جدید نسل کے قان طیاروں سے بدلنا چاہتا ہے۔

پاکستان جو پہلے ہی چین کی مدد سے طیارہ سازی میں اہم مقام حاصل کر چکا ہے اس کی ترکی کے ساتھ شراکت داری کو دفاعی ماہرین انقلابی پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔

اس سال جنوری میں پاکستان اور ترکی نے قان کی تیاری میں مشترکہ فیکٹری بنانے کے عزم کا اظہار کیا تھا اس سلسلے میں ترکی کے وزیر دفاع نے دونوں ممالک کے درمیان جلد ہی ایک معاہدے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ تاہم بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پہلے ہی پاکستان کے سینکڑوں ماہرین قان کے منصوبے میں کام کر رہے ہیں۔

ترکی کو جنگی ڈرون بنانے میں خاصی مہارت حاصل ہے اور اس کے ڈرونز حالیہ روس یوکرین جنگ میں نہایت کارگر جنگی ہتھیار ثابت ہوئے ہیں۔ ترکی نہ صرف پاکستان کو جدید جنگی ڈرون فراہم کر رہا ہے بلکہ ان کی تیاری میں بھی پاکستان کو معاونت فراہم کر رہا ہے۔

پاکستان، ترکی اور آذربائیجان کا فوجی اتحاد خطے کی بدلتی ہوئی تزویراتی صورت حال میں نہایت اہم ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے ہمراہ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کا باکو جانا اور آذری وزیر دفاع کرنل جنرل حسین ذاکر اصغر اوغلو سے ملنا اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔

تینوں ممالک کے درمیان فوجی اتحاد کو معاشی اتحاد میں بھی بدلا جا رہا ہے کیونکہ آذربائیجان تیل و گیس سمیت قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے اور ترکی جدید صنعت و حرفت میں اہم مقام حاصل کر چکا ہے جو قوتِ خرید کے حوالے سے دنیا کی 12 ویں بڑی معیشت ہے جہاں پر پاکستانی مصنوعات کی کھپت کے وسیع امکانات ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ