افغانستان کی عبوری حکومت میں طالبان کے ایک سینیئر وزیر نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کابل میں ایک مضبوط یا خودمختار افغان حکومت نہیں دیکھنا چاہتا، چاہے قیادت کسی کے بھی ہاتھ میں ہو۔
طالبان کے وزیر برائے توانائی و آبپاشی عبد اللطیف منصور نے جمعرات کو شمشاد نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں الزام لگایا کہ ’پاکستان افغانستان میں کسی بھی قسم کی مستحکم مرکزی حکومت کا مخالف ہے، چاہے وہ طالبان کی ہو، مجاہدین کی یا کمیونسٹوں کی۔‘
عبد اللطیف منصور نے کہا: ’ہمارے کچھ پڑوسی، خاص طور پر پاکستان، افغانستان میں مستحکم حکومت نہیں چاہتے۔‘
افغان وزیر کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گذشتہ روز پاکستانی سیکورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کی افغانستان کے ساتھ سرحد عبور کر کے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش ناکام بناتے ہوئے ایک کارروائی میں 33 عسکریت پسندوں کو مار دیا تھا۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے جمعے کو جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ ’سکیورٹی فورسز نے سات اور آٹھ اگست 2025 کی درمیانی رات بلوچستان کے ضلع ژوب کے علاقے سمبازہ میں انڈین پراکسی فتنہ الخوارج سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کے ایک بڑے گروہ کی نقل و حرکت کا پتہ لگایا جو پاکستان افغانستان سرحد کے راستے دراندازی کی کوشش کر رہے تھے۔‘
طالبان کے وزیر برائے توانائی و آبپاشی نے مزید کہا: ’اب ہمیں سمجھ آ گیا ہے کہ پاکستان ایسی افغان حکومت نہیں چاہتا جو اپنے پاؤں پر کھڑی ہو۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عبد اللطیف منصور نے الزام لگایا کہ ’اسلام آباد جان بوجھ کر افغانستان میں اندرونی تقسیم اور بحران کو ہوا دیتا ہے تاکہ اپنے سیاسی اور معاشی مفادات حاصل کر سکے۔‘
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں کو پناہ دینے کے پاکستان کے بار بار کے دعوؤں پر ردعمل دیتے ہوئے عبد اللطیف منصور نے اس گروہ کی افغانستان میں موجودگی سے انکار نہیں کیا لیکن کہا کہ ملک میں موجود کسی بھی ٹی ٹی پی کے مراکز طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے کے ہیں۔
ان کا اصرار تھا کہ افغانستان کو ہمسایہ ممالک پر حملوں کے اڈے کے طور پر استعمال نہیں کیا جا رہا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ خود ٹی ٹی پی جنگجو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے کارروائیاں کر رہے ہیں اس لیے افغانستان پر الزام لگانے کے بجائے پاکستان کو چاہیے کہ وہ انہیں قبائلی علاقوں میں تلاش کرے۔
طالبان اور اسلام آباد کے درمیان دو سال کی شدید کشیدگی اور ایک دوسرے پر الزامات کے بعد محتاط انداز میں تعلقات میں بہتری آ رہی ہے، خاص طور پر ٹی ٹی پی کے معاملے پر حالانکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں رواں برس اتار چڑھاؤ دیکھا گیا ہے۔
افغان پناہ گزینوں کی پاکستان سے اپنے وطن جبری واپسی پر افغان عبوری حکومت نے فروری اور مارچ 2025 کے دوران تشویش کا اظہار کیا تھا اور پاکستان سے نرم رویہ اختیار کرنے کی اپیل کی تھی۔
اس کے بعد پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے 19 اپریل 2025 کو کابل کا دو روزہ دورہ کیا تھا۔
افغان حکام سے ملاقاتوں میں سرحدی سکیورٹی، انسدادِ دہشت گردی تعاون، باہمی تجارت اور ٹرانزٹ راستوں پر بات ہوئی تھی۔
دونوں اطراف نے اعلیٰ سطح کے رابطوں کو مضبوط رکھنے اور اعتماد سازی اقدامات پر اتفاق کیا، تاہم افغان حکام نے کچھ پاکستانی پالیسیوں پر تحفظات بھی ظاہر کیے تھے۔
مئی 2025 میں پاکستان نے کابل میں اپنے سفارتی عملے کو سفیر کی حیثیت دینے کا اعلان کیا تھا اور کابل نے اسلام آباد میں اپنے نمائندے کی درجہ بندی بڑھانے کا عندیہ دیا تھا۔
دونوں جانب سے اس اقدام کو تعلقات معمول پر لانے اور رابطے بڑھانے کی کوشش قرار دیا گیا تھا۔
مئی 2025 میں ہی پاکستان، افغانستان اور چین کے وزرائے خارجہ کی سہ فریقی ملاقات ہوئی۔
تینوں ممالک نے افغانستان میں سرمایہ کاری، علاقائی استحکام اور چین‑پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی ممکنہ توسیع پر تبادلۂ خیال کیا۔ چین نے خطے میں اقتصادی شراکت اور استحکام کے عزم کا اعادہ کیا۔
یکم جون 2025 کو پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے درمیان ٹیلیفونک گفتگو ہوئی، جس میں سفارتی اپ گریڈ کے نفاذ، سرحدی مسائل اور اعتماد سازی کے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔ دونوں نے مستقبل میں مزید رابطوں پر زور دیا۔
جون کے آخر میں پاکستان، چین اور روس کے نمائندے افغانستان کے حوالے سے غیر رسمی بات چیت کے لیے جمع ہوئے۔
گفتگو کا محور علاقائی ہم آہنگی، اقتصادی رابطہ اور سکیورٹی تعاون تھا۔
اگست 2025 کے دوران متعدد بار سرحد پر سکیورٹی واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں پاکستانی فورسز کے آپریشنز اور افغان حدود کے قریب کارروائیاں شامل رہیں۔