جب پشاور یونیورسٹی میں طلبہ کی تفریح کے لیے سینما ہال ہوا کرتا تھا

پشاور یونیورسٹی کا سنیما جہاں فلم دیکھنے کا ٹکٹ ایک روپیہ تھا، ’اب قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔‘

پاکستان میں کسی بھی یونیورسٹی کے اندر سینیما ہونا ایک تعجب کی بات ہے اور یہاں بات ہو رہی ہے پشاور کی جہاں ثقافت پر گہری نگاہ رکھنے والوں کے مطابق پشاور یونیورسٹی میں ایک زمانے میں سینیما ہوا کرتا تھا۔

پشاور یونیورسٹی کی بنیاد 1950 میں اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے رکھی تھی، اور تاریخ دانوں کے مطابق ’بنیاد رکھنے کے بعد ہی پشاور یونیورسٹی میں سینیما ہال بنایا گیا تھا جس کو آغا خان ہال کہا جاتا ہے۔‘

ڈان اخبار کے لیے خیبر پختونخوا کے ثقافتی موضوعات پر لکھنے اور 1986 میں پشاور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والے  والے شیر عالم شینواری بتاتے ہیں کہ ’ماضی میں ہر ایک یونیورسٹی میں طلبہ کو تفریح فراہم کرنے کے لیے  تھیٹر ہال ہوا کرتا تھا، جس میں سٹیج ڈرامے سمیت فلمیں بھی دکھائی جاتی تھیں، لیکن پشاور یونیورسٹی میں قائم سینیما اب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔‘

شیر عالم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب میں 1986 میں پشاور یونیوسٹی گیا تو اس وقت اس (تھیٹر ہال) کی بندش کو تقریباً سات سال ہوچکے تھے۔ اس ہال میں میوزیکل کانسرٹ بھی ہوا کرتے تھے اور پشتو کے معروف فنکار اسی میوزک پروگراموں میں شرکت کرتے تھے۔‘

’پشتو کی معروف گلوکارہ قمر گلہ جو اب کچھ دن پہلے وفات پا گئیں ہیں، ان سمیت معروف فنکار کشور سلطان بھی اسی ہال میں پرفارم کر چکے ہیں۔‘

 شیر عالم کے مطابق افغان جہاد کے دوران ماحول ایسا بنا کہ اس ہال کو بند کر دیا گیا، ’زمانہ قدیم میں جو لوگ ان سینیما میں تھیٹر فلم دیکھتے رہے ہیں انہوں نے بتایا کہ دوپہر دو بجے کے بعد سینیما میں فلمیں لگا کرتی تھیں۔‘

اس ہال کو ابتدا سے ہی آغا خان آڈیٹوریم کے نام سے جانا جاتا ہے، اور اسے اب بھی آغا خان تھیٹر اور سینیما کہا جاتا تھا۔

شیر عالم کے مطابق ’افغان جہاد کے بعد گذشتہ دو دہائیوں سے دوبارہ اسی ہال میں میوزک تقریبات کا آغاز کیا گیا اور زیادہ تر طلبہ یہاں پر الوداعی یا ویلکم پارٹیوں کا اہتمام کرتے ہیں۔‘

سینیما ہال میں کیا ہے؟

سینیما طرز پر بنائی گئی اس عمارت کے چار مرکزی دروازے، دو خواتین کے لیے چھوٹے دروازے جبکہ پرانے زمانے کی کرسیاں، پنکھے اور بجلی کی تاریں اور سوئچ بوڑز آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔

اس سینیما کے لیے پردہ جبکہ تھیٹر کے لیے سٹیج بھی لگایا گیا ہے اور خواتین و مردوں کے لیے الگ الگ کرسیاں ہال میں نصب ہیں۔

اس ہال کے تہہ خانے میں کچھ کمرے بھی بنائے گئے ہیں، جو بطور گودام استعمال کیے جاتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پشاور یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں گذشتہ 30 سالوں سے بطور کلاس فور ملازمت کرنے والے ظاہر شاہ کہتے ہیں کہ ’وہ تقریباً 15سال کے تھے تو دوستوں کے ساتھ اسی ہال میں فلم دیکھا کرتے تھے۔‘

اپنی ماضی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے ظاہر شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہال کی گیلری میں خواتین اور نیچے مرد بیٹھتے تھے اور گیلری کے ساتھ ہی چھوٹے داخلی دروازوں سے خواتین اندر آتی تھیں۔

’ہال کے باہر ایک ٹکٹ گھر بھی موجود ہے، اور اس زمانے میں ٹکٹ کی قیمت ایک روپے ہوا کرتی تھی۔‘

ظاہر شاہ نے بتایا کہ ’محمد علی خان پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے، اور مجھے تھوڑا بہت یاد ہے کہ یہاں پر کوئی جھگڑا ہوا تھا، جس کی وجہ سے ہال کو بند کر دیا گیا تھا، جس کے بعد یہاں پر کوئی فلم نہیں دکھائی گئی ہے۔‘

ٹکٹ گھر کو تالا لگا ہوا ہے اور ہال کے مرکزی دروازوں سمیت چھت کی تزئین و آرائش کی گئی ہے جبکہ سٹیج کو سنوارنے کے لیے بھی مرمتی کام کیا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ