دستخط کی الگ فیس: طالب علم کا پشاور یونیورسٹی کو قانونی نوٹس

عمر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یونیورسٹی میں طلبہ سے بے جا فیسیں وصول کی جاتی ہیں جس کی ایک مثال ڈگری اور ڈی ایم سی کے لیے  دو مرتبہ فیس جمع کرنا ہے۔

یونیورسٹی آف پشاور کی عمارت (تصویر: یونیورسٹی  آف پشاور/ فیس بک)

یونیورسٹی آف پشاور کے لا کالج سے ڈگری مکمل کرنے والے عمر خان نے حال ہی میں ایک دستخط کرنے کی ایک ہزار فیس جمع کرنے کے خلاف اپنے وکیل کے توسط سے یونیورسٹی کو قانونی نوٹس بھیجوایا ہے۔

اس نوٹس میں انہوں نے موقف اپنایا ہے کہ مارک شیٹ اور اس پر دستخط کے لیے فیس الگ جمع کرنا غیر قانونی ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’پانچ سال تک بڑی محنت سے یونیورسٹی کی سمیسٹر فیس جمع کرتا رہا۔ ڈگری مکمل کرنے کے بعد اب جب ڈگری لینے کی لیے اپلائی کیا تو مجھ سے فیس جمع کرنے کا کہا گیا، وہ بھی کردی۔ بعد میں یونیورسٹی والوں نے ڈیٹیلڈ مارک شیٹ پر کنٹرولر آف امتحانات کے ایک دستخط کے لیے دوبارہ ایک ہزار روپے جمع کرنے کا بتا دیا جو سراسر زیادتی ہے کہ اپنی ہی ڈگری لینے کے لیے مجھے ایک دستخط کے لیے فیس جمع کرنا ہوگی۔‘

عمر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یونیورسٹی میں طلبہ سے بے جا فیسیں وصول کی جاتی ہیں جس کی ایک مثال ڈگری اور ڈی ایم سی کے لیے  دو مرتبہ فیس جمع کرنا ہے۔

 انھوں نے بتایا،’ ابھی میں نے ڈی ایم سی کے لیے فیس جمع کی اور وہ مجھے مل گئی لیکن بعد میں مجھے  بتایا گیا کہ ایک ہزار فیس جمع کریں تاکہ اس پر کنٹرولر امتحانات دستخط کر سکیں۔

انھوں نے بتایا،’ میں نے پانچ سال میں دس سمیسٹر کے لیے فی سمیسٹر 33 ہزار روپے جمع کیے۔ اس کے علاوہ ہاسٹل وغیرہ کے چارجز الگ ہیں، تو اب ایک دستخط کے لیے ہم سے بغیر کسی وجہ کے ایک ہزار روپے لیے جا رہے ہیں اور صرف میں نہیں بلکہ یونیورسٹی کا ہر ایک طالب علم کرتا ہے۔‘

اس کے علاوہ عمر خان نے بتایا کہ کچھ جگہوں پر اپلائی کرنے کے لیے تعلیمی دستاویزات کی تصدیق کی ضرورت ہوتی ہے، تو یونیورسٹی والے ایک دستاویز کی ایک ہزار روپے فیس لیتے ہیں جو سراسر زیادتی ہے۔

انھوں نے بتایا،’ میں نے یونیورسٹی کو قانونی نوٹس بھجوایا ہے اور اس کا ایک مقصد ہے کہ اگر یہ مسئلہ حل ہوجائے تو نجی یونیورسٹیاں بھی یہ کام نہیں کریں گے ۔ نجی یونیورسٹیاں ڈی ایم سی اور ڈگری کی تین سے پانچ ہزار روپے تک فیس لیتی ہیں۔‘

یونیورسٹی رجسٹرار کے نام قانونی نوٹس جو کاکاخیل ایسوسی ایٹس نامی فرم کی جانب سے بھیجا گیا ہے،  میں لکھا گیا ہے کہ ان کے موکل یونیورسٹی لا کالج کے ریگولر طالب علم تھے اور 21جنوری کو یونیورسٹی کی جانب سے ان کو ڈی ایم سی مل گئی جس پر پرنسپل لا کالج اور بی ایس پروگرام کووارڈینیٹر کا دستخط موجود ہے۔

نوٹس میں موقف اپنایا گیا ہے کہ دستخط کی مد میں فیس یونیورسٹی کی ویب سائٹ اور طلبہ کو داخلے کے وقت دی جانے والی پراسپکٹس میں کہیں پر درج نہیں ہے جبکہ یونیورسٹی ڈی ایم سی ویریفیکیشن کی مد میں بھی طلبہ سے فیس لے رہی ہے۔

پشاور یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق ڈی ایم سی ویریفیکیشن  کی فیس ایک ہزار روپے ہے جبکہ ڈگری ویریفیکیشن کی 1400 روپے وصول کی جائے گی۔ ویب سائٹ کے مطابق اگر بیرون ملک کوئی طالب علم ویریفیکیشن کرنا چاہتا ہے، تو ان سے فی  دستاویز 50 ڈالر وصول کیے جائیں گے۔

نوٹس میں لکھا گیا ہے،’ اس یونیورسٹی کے زیادہ تر طلبہ غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور اس قسم کے ایک دستخط کے لیے فیسیں ان گھرانوں پر بوجھ ہیں اور یہ طلبہ کے ساتھ زیادتی ہے۔‘

وکیل کا کہنا تھا: ’نوٹس کے مطابق میرے موکل سے جو فیس لی گئی ہے وہ غیر قانونی ہے اور یونیورسٹی کی جانب سے 14 دن کے اندر یہ فیس ان کو واپس کیا جائے اور اگر نہیں ہوا تو یونیورسٹی کے خلاف پشاور ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکٹایا جائے گا۔

دیگر یونیورسٹیوں کی طرح پشاور یونیورسٹی میں بھی اس قسم کی فیسیں وصول کی جاتی ہے۔ یونیورسٹی کے فیس سٹرکچر کے مطابق یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کرنے کی فیس 1600روپے، ڈی ایم سی حاصل کرنے کی فیس ایک ہزار، مائگریشن سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی فیس 2750، اور اگی کسی دستاویز میں غلطی ہو تو تصحیح کی 900 روپے وصول کیے جائیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انور زیب پشاور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں اور ان کے ایک دستاویز میں یونیورسٹی کی جانب سے غلطی تھی لیکن اس کا فیس ان سے لی گئی۔ انور نے بتایا: ’غلطی یونیورسٹی کے کلرک نے کی لیکن تصحیح کے لیے فیس مجھ سے لی اور ایک مرتبہ نہیں بلکہ دو مرتبہ ایسا ہوا۔‘

کاکا خیل ایسوسی ایٹس کے ممبر نعمان محب کاکاخیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آئین پاکستان کے تحت تعلیم حاصل کرنا ہر شہری کا حق ہے اور حکومت کی جانب سے تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے آسانیاں پیدا کیے جائیں گی۔

تاہم نعمان کے مطابق پشاور یونیورسٹی نے  ڈی ایم سی لینے کا طریقہ کار اور ساتھ میں فیس لینا اتنا پیچیدہ بنا دیا ہے کہ ایک غریب طالب علم کے لیے ایم ڈی ایم سی لینے کے لیے مجموعی طور پر تین ہزار روپے جمع کرنے ہوتے ہیں۔

نعمان نے بتایا،’ میں نے اپنے موکل کی ایما پر پشاور یونیورسٹی کو قانونی نوٹس بھیجوا دیا ہے اور اب یونیورسٹی کی جواب کا انتظار ہے۔ ابھی تک یونیورسٹی کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا ہے۔‘

نعمان سے جب پوچھا گیا کہ کاونٹر دستخط کے لیے فیس لینا خلاف قانون ہے، اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پر ایک ادارے کا اپنا ایک قانون ہوتا ہے  اور پشاور یونیورسٹی نے بھی اپنے کچھ رولز بنائے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ یونیورسٹی ویب سائٹ اور دیگر جگہوں پر ڈی ایم سی فیس اور ڈگری وغیرہ کے فیس کا ذکر تو موجو ہے، تاہم کسی جگہ پر بھی کاونٹر دستخط کے لیے ایک ہزار فیس کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے اور یہ فیس لینا اسی وجہ سے قانون کے خلاف ہے۔

نعمان نے بتایا،’ اگر یونیورسٹی نے میرے موکل کو کاونٹر دستخط کے لیے جمع شدہ پیسے واپس نہیں کیے، تو ہم پشاور ہائی کورٹ میں پشاور یونیورسٹی کے خلادف درخواست جمع کرائیں گے۔‘

یونیورسٹی کو بھیجے گئے قانونی نوٹس کے حوالے سے یونیورسٹی کے ترجمان محمد نعمان نے بتایا ہے کہ وہ یونیورسٹی رجسٹرار سے بات کر کے موقف دیں گے تاہم اس کے بعد ان سے رابطہ کیا گیا لیکن ابھی تک انھوں نے یونیورسٹی کا موقف نہیں بھیجا۔

پشاور یونیورسٹی کے ترجمان محمد نعمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جس دستخط کرنے کے لیے فیس کی بات ہورہی ہے، یہ یونیورسٹی سنڈیکیٹ کی جانب سے منظور شدہ ہے۔

 انھوں نے بتایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ جتنی بھی فیس لیتی ہے چاہے وہ کسی چیز کی مد میں بھی ہوں، وہ یونیورسٹی سنڈیکیٹ کی جانب سے ہوتا ہے جو یونیورسٹی کے امور چلانے کی اہم باڈی ہے۔

نعمان نے بتایا،’کنٹرولر امتحانات کے دستخط تعلیمی دستاویزات پر ضروری ہوتے ہیں کیونکہ اس میں جعلی ڈگریوں یا ڈی ایم سی کو چیک کیا جا سکتا اور اس کے لیے فیس سنڈیکیٹ نے مقرر کی ہے۔’

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان