ڈاؤ یونیورسٹی کے طلبہ انسانی لاشوں کی بجائے سیمولیٹرز پر سیکھ سکیں گے

کراچی کی ڈاؤ یونیورسٹی میں انسانی جسم کی تمام خصوصیات رکھنے والے جدید ڈمی یا سمیولیٹر رکھے گئے ہیں جن پر میڈیکل کے طلبہ تجربے کر سکیں گے اور علاج سیکھ سکیں گے۔

آپ نے بالی وڈ فلم ’منا بھائی ایم بی بی ایس‘ ضرور دیکھی ہوگی، جس کے ایک منظر میں فلم کے مرکزی کردار مرلی پرساد عرف منا بھائی کو میڈیکل کالج کے ڈین پریکٹیکل کے لیے اپنی لاش لانے کا کہتے ہیں۔

اس پر منا بھائی اپنے ساتھی سرکٹ کو لاش لانے کی ہدایت کرتے ہیں۔

زیر تعلیم ڈاکٹروں کو سکھانے کے لیے انسانی لاش کی ضرورت کی بجائے اب ٹیکنالوجی نے میڈیکل طلبہ کو سہولت فراہم کر دی ہے کہ وہ انسانی جسم سے مشابہت رکھنے والے سمیولیٹر پر سیکھ سکھیں۔

کراچی کی ڈاؤ یونیورسٹی میں انسانی جسم کی تمام خصوصیت رکھنے والی جدید ڈمی یا سمیولیٹر لیے آصف رحمان سیمولیشن سینٹر قائم کیا گیا ہے۔

یہاں میڈیکل طلبہ کو علاج معالجے اور انسانی جسم کے متعلق تعلیم دینے کے لیے ان مصنوعی مریضوں کو استعمال کیا جائے گا۔

اس سے پہلے یہ سہولت نجی شعبے کے پاس تھی۔ اس سمیولیٹر کی مدد سے کسی بھی مرض کی تمام علامات پیدا کی جاسکتی ہیں تاکہ میڈیکل طلبہ اس بیماری میں تبدیل ہوتی ہوئی علامات کا علاج کرسکیں۔

جیسے کہ اگر طلبہ کو دل کے دورے کے مریض کا علاج سکھایا جارہا ہے تو کمپیوٹر پروگرامنگ کی مدد سے اس ڈمی مریض میں دل کی دھڑکن، آکسیجن لیول وغیرہ کو تبدیل کیا جائے گا اور پھر طلبہ سے پوچھا جائے گا کہ اب وہ اس مریض کے علاج کے لیے کیا کریں گے؟

سمیولیٹر کے ساتھ سکرین جڑی ہیں، جن پر مریض کا ای سی جی، دل کی دھڑکن، آکسیجن لیول اور دیگر وائٹلز دکھائی دیتی ہیں۔

طلبہ سمیولیشن کے دوران اصلی مریض کو دی جانے والی ادویات کا استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ مصنوعی مریض کا بلڈ پریشر، دل کی دھڑکن، بخار چیک کرنے کے علاوہ انہیں آکسیجن اور ڈرپ بھی لگاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ سمیولیٹر انسانی جسم سے اتنی مشابہت رکھتے ہیں کہ انہیں انسانوں کی طرح پسینہ آتا ہے، وہ درد ہونے پر روتے ہیں تو پانی کی صورت میں ان کے آنسو نکلتے ہیں جبکہ وہ انسانوں کی آواز میں کھانس بھی سکتے ہیں۔

چند روز قبل آصف رحمان سیمولیشن سینٹر کا باقاعدہ افتتاح وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کیا تھا۔

اس مرکز کو تیار کرنے پر کُل 23 کروڑ روپے لاگت آئی، جس میں تین کروڑ روپے ڈاؤ یونیورسٹی کی 1990 کی کلاس میں تعلیم لے کر ڈاکٹر بننے والوں نے جبکہ 20 کروڑ روپے ڈاؤ یونیورسٹی نے ادا کیے۔

ڈاؤ یونیورسٹی کی 1990 کی کلاس کی تنظیم کے ترجمان ڈاکٹر محمد عاصم ہاشمی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ڈاؤ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے والے ڈاکٹر جب عملی زندگی میں جاتے ہیں تو اپنی یونیورسٹی کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے ہیں۔

’1990 کی کلاس نے یونیورسٹی میں فرش لگانے کے ساتھ اس مرکز کی لفٹ عطیہ کی جبکہ سمیولیٹر ڈاؤ یونیورسٹی نے منگوائے۔‘

ڈاکٹر محمد عاصم ہاشمی نے مزید کہا کہ پہلے میڈیکل طلبہ کو سکھانے کے لیے انسانی لاش استعمال کی جاتی تھی، مگر اب اس مرکز کے بعد انسانی لاش کی ضرورت نہیں۔

’انسانی لاش ایک بار استعمال کے بعد دوبارہ استعمال نہیں کی جاسکتی تھی، مگر اب یہ انتہائی آسان ہوگیا ہے۔‘

آصف رحمان سیمولیشن سینٹر کے بایومیڈیکل انجینیئر سید صارم علی نے بتایا کہ سمیولیٹر کا علاج کرنے والے  طلبہ کو براہ راست دیکھا جاتا ہے اور اگر وہ کوئی غلطی کرتے ہیں تو انہیں وہیں پر سمجھایا جاتا ہے۔

’مرکز میں زچگی کے پیچیدہ عمل کو سمجھنے کے لیے سمیولیٹر رکھے گئے ہیں جن سے زچگی کرائی جاتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اس مرکز میں دیگر تعملی اداروں کے طلبہ کو بھی سکھایا جائے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا