سور کے دل کی انسان میں پیوند کاری کے علمبردار پاکستانی ڈاکٹر

ڈاکٹر منصور محی الدین کا کہنا ہے کہ ’ہم اس پر گذشتہ 18 سالوں سے کام کر رہے تھے۔ وہ 18 سال مایوسی کے مختلف مراحل کے ساتھ بندھے ہوئے تھے، ساتھ ہی کامیابیاں بھی ملیں لیکن آخر کار ہم نے یہ کر دکھایا۔‘

دنیا میں سب سے پہلے سور سے انسان میں دل کی پیوند کاری کرنے والے پاکستانی سرجن کے دوستوں اور سابق ہم جماعتوں کا کہنا ہے کہ انہیں میڈیکل سکول کے دنوں سے ہی اس بات کا اندازہ تھا کہ ان کے سرجن دوست کوئی عظیم کام کریں گے۔

کراچی میں پیدا ہونے والے محمد منصور محی الدین امریکی یونیورسٹی پروگرام کے شریک بانی کے طور پر گذشتہ ہفتے سرخیوں میں رہے جنہوں نے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ سور کے دل کو ایک شدید بیمار امریکی مریض میں کامیابی سے ٹرانسپلانٹ کیا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک طبی پیش رفت کے طور پر سراہے جانے کے ساتھ، اس طریقہ کار نے اخلاقی سوالات بھی پیدا کیے ہیں خاص طور پر کچھ یہودیوں اور مسلمانوں میں، جو خنزیر کو ناپاک سمجھتے ہیں اور خنزیر کے گوشت سے پرہیز کرتے ہیں۔

لیکن پاکستان میں محی الدین کے دوستوں اور سابق ساتھیوں میں سے کسی کو بھی اس بات کی فکر نہیں تھی کیوں کہ وہ انہیں طب کے شوقین طالب علم کے طور پر ہی یاد کرتے ہیں۔

1980 کی دہائی میں محی الدین کے ساتھ کراچی کے ڈاؤ میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کرنے والے ماہر منیر امان اللہ نے کہا کہ ’وہ بہت دلچسپی رکھتا، ہمیشہ وہاں دستیاب رہتا اور ہمیشہ سرجری میں شامل ہونے کے لیے تیار رہتا تھا۔‘

کالج کے وائس چانسلر محمد سعید قریشی نے کہا کہ محی الدین کی کامیابی پر کیمپس میں تہنیتی پیغامات کا سیلاب آیا ہوا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’اس بات پر خوشی منائی جا رہی تھی کہ اس کالج سے فارغ التحصیل طالب علم نے یہ سب کیا ہے۔‘

محی الدین یونیورسٹی آف میری لینڈ میڈیکل اسکول کی 50 رکنی ٹیم کے ہمراہ کارنامہ انجام دینے میں تیزی سے مصروف رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے اے ایف پی کو فون پر بتایا کہ ’وہ تمام افراد اپنے اپنے شعبے کے ماہر تھے۔ وہ بہترین سرجنز تھے، اعلی فزیشنز اور بے ہوش کرنے والے اور دیگر۔‘

اگرچہ سور کا دل وصول کرنے والے شخص کو اس کا دور دور تک ادراک نہیں ہے کہ سرجری جانوروں سے انسان میں پیوند کاری میں ایک اہم سنگ میل کی

نمائندگی کرتی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریباً ایک لاکھ 10 ہزار امریکی اس وقت اعضا کی پیوند کاری کا انتظار کر رہے ہیں اور ہر سال چھ ہزار سے زیادہ مریض اس ایک عضو کی پیوند کاری سے قبل ہی مر جاتے ہیں۔

مانگ کو پورا کرنے کے لیے، ڈاکٹرز طویل عرصے سے نام نہاد ’زینو ٹرانسپلانٹیشن‘یا کراس سپیشیز اعضا کے عطیے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

محی الدین کا کہنا ہے کہ ’ہم اس پر گذشتہ 18 سالوں سے کام کر رہے تھے۔ وہ 18 سال مایوسی کے مختلف مراحل کے ساتھ بندھے ہوئے تھے، ساتھ ہی کامیابیاں بھی ملیں لیکن آخر کار ہم نے یہ کر دکھایا۔‘

یہ سرجری تنازعے سے ’پاک‘ نہیں ہے خاص طور پر محی الدین کے اسلامی عقیدے کو مدنظر رکھتے ہوئے۔

مسلمان اور یہودی خنزیر کو ناپاک جانور سمجھتے ہیں یہاں تک کہ کچھ مسیحی بھی جو انجیل کے پرانے عہد نامے کی لفظی طور پر پیروی کرتے ہیں۔

نمایاں اسلامی سکالر جاوید احمد غامدی نے اپنے ایک ویڈیو لاگ میں اس سرجری پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ میری نظر میں یہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں۔‘

لیکن پاکستان میں ایک اور اسلامی سکالر نے اس طریقہ کار کو صحت کے لیے جائز قرار دیا۔

علامہ حسن ظفر نقوی نے اس سرجری کو ایک ’طبی معجزہ قرار‘ دیتے ہوئے بتایا: ’شریعت میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔‘

پاکستانی سرجن محی الدین کا کہنا ہے کہ ’مذہب میں کوئی بھی کام انسانی جان بچانے سے افضل نہیں۔‘

کراچی میں موجود سرجن محی الدین کے پرانے ساتھیوں کا خیال ہے کہ محی الدین کے مقدر میں اس سے بڑا اعزاز یعنی ’طب کا اعلیٰ انعام‘ ہے۔

ڈاؤ میں ڈیکل کالج کے وائس چانسلر قریشی نے کہا کہ ’میرے خیال میں پوری ٹیم کو اس کے لیے نوبیل انعام سے نوازا جانا چاہیے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت