23 ہزار سے زائد لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر کی زندگی

1977میں ڈاکٹر بننے کے بعد رچرڈ شیفرڈ نے اتنے صدمے دیکھے ہیں جو کئی زندگیوں کے لیے کافی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ ایسا شعبہ ہے جس کے نفسیاتی اثرات سے نمٹنے کے لیے مضبوط اعصاب اور حس مزاح ضروری ہوتی ہے۔

ڈاکٹر شیفرڈ کے کام کی نوعیت ایسی تھی کہ انہیں گذشتہ 40 برس میں  پیش آنے والے بعض بدترین حادثات سے نبرد آزما ہونا پڑا (نیٹ فلکس)

برطانیہ کے ممتاز ترین فرانزک پیتھالوجسٹوں میں سے ایک ڈاکٹر رچرڈ شیفرڈ نے موت میں ڈوبی ہوئی زندگی گزاری۔

انہوں نے 23 ہزار سے زائد لاشوں کے پوسٹ مارٹم کی نگرانی کی اور گذشتہ 40 سال کے دوران نائن الیون، سات جولائی 2005 میں لندن بم دھماکوں، شہزادی ڈیانا کی موت، سٹیون لارنس کے قتل، ڈاکٹر ہیرالڈ شپ مین کی سیریل کلنگز، ہنگر فورڈ قتل عام، ڈاکٹر ڈیوڈ کیلی کی خود کشی، کمبریا فائرنگ، ایم پی جو کاکس اور بالی بم دھماکہ جیسے رونما ہونے والے افسوس ناک ترین سانحات سے اپنے کام کے وجہ سے منسلک رہے۔

1977 میں ڈاکٹر بننے کے بعد شیفرڈ نے اس طویل عرصے میں کئی افسوس ناک واقعات دیکھے۔ لیکن موت اور تباہی کے ان واقعات کا بادی النظر میں ان پر کوئی خاص اثر نہ ہوا یہاں تک کہ 2006 میں بظاہر ایک چھوٹے سے بے ضرر لمحے نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ 

فرانزک معالج لنڈا سے شادی شدہ اور دو جوان بچوں کرس اور اینا کے باپ 68 سالہ شیفرڈ یہ کہانی بیان کرتے ہیں۔

’آپ جانتے ہیں کہ آپ سپرمارکیٹ سے جا کر ایک تھیلے میں برف کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے خرید سکتے ہیں۔ جیسا کہ بہت سے لوگوں کے گھروں میں یہ موجود ہوتے ہیں ہمارے فریج میں بھی تھے۔ ایک شام میں اپنی بیوی کے لیے جن اور ٹانک ملا رہا تھا، میں نے فریج کا دروازہ کھولا اور برف کے چھوٹے چھوٹے کئی ٹکڑے اٹھا لیے۔

’لیکن تھیلے میں برف کے ٹکڑوں پر نظر پڑتے ہی میں واپس 2002 میں جا پہنچا جہاں بالی میں لاشیں زمین پر پڑی ہیں اور فضا میں بو اور تپش کا شدید احساس ہے۔ وہاں خوفناک منظر تھا۔ اس وقت انڈونیشیا میں سہولیات کا بنیادی ڈھانچہ تک نہ تھا۔ مردہ خانے انتہائی بری حالت میں تھے۔ انتہائی گندے، اور ایک ہی پانی کا نل تھا جس سے پانی بہنے کے بجائے قطرہ قطرہ رِستا تھا۔ کیونکہ لاشوں کو رکھنے کی باقاعدہ جگہ کوئی تھی ہی نہیں تھی اس لیے ہم انہیں ٹھنڈا کرنے کے لیے برف کے تھیلوں سے کام چلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس کے کئی سال بعد گھر میں برف کا تھیلا کھولنا اچانک نفسیاتی صدمے (پی ٹی ایس ڈی) بیدار کرنے کا باعث بن گیا۔‘

مخصوص برطانوی پیشہ ورانہ انداز سے کام لیتے ہوئے پی ٹی ایس ڈی کے کئی دوروں کے بعد بھی شیفرڈ نے سب ٹھیک کہہ کر خود کو پرسکون رکھنے اور معمول کے مطابق چلنے کی کوشش جاری رکھی۔ ’رات میرے لیے انتہائی بھیانک تھی اور صبح میں خود دفتر پہنچا لیکن وہاں پہنچتے ہی منجمد ہو کر بیٹھ گیا۔

’میں نے ڈاکٹر کو فون کیا اور کہا، ’ہیلو، میں آپ سے ملاقات کا وقت لینا چاہتا ہوں۔‘

ان کا جواب تھا، ’میں معذرت خواہ ہوں، ملاقات کا پیشگی وقت صرف صبح آٹھ بجے لیا جا سکتا ہے۔‘

’مجھے لگتا ہے میں اپنے ہاتھوں اپنا خاتمہ کر ڈالوں گا۔‘

ایک لمحے کو دوسری طرف مکمل سکوت چھا گیا اور پھر آواز آئی ’کیا آپ ابھی فوراً آنا چاہیں گے؟‘

ذہنی صحت کے لیے درکار ضروری اقدامات فوری اٹھائے گئے اور شیفرڈ کہتے ہیں، ’میں خود کو بہت زیادہ خوش قسمت تصور کرتا ہوں کہ مدد کے لیے ایسے عمدہ لوگ ملے۔ ذہنی مسائل کی دیکھ بھال کرنے والی نرسیں فوراً دوڑی چلی آئیں اور دیگر امدادی ٹیم انتہائی روشن دماغ تھی۔ مجھے یاد ہے ان میں سے ایک نے مجھے کہا ’آپ جانتے ہیں، ڈاکٹروں کے بارے میں جو چیز مجھے پریشان کرتی ہے وہ یہ کہ بہت سے مریض خود کشی کے بارے میں بات کرتے ہیں لیکن آپ تو اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ کیا کرنا چاہیے۔‘

کبھی بھی خوفناک موضوعات سے متعلق کوئی چٹکلہ سامنے آنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی تھی، شیفرڈ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں، ’مگر ایسا نہیں کہ ان لمحات میں مایوسی ہی مایوسی تھی۔‘ مثال کے طور پر جب میں اپنی ماہر نفسیات معالج کے گھر اپنی تھراپی کے پہلے سیشن کے لیے گیا تو میں نے نوٹ کیا کہ یہ وہ لمحہ ہے جس کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ کا دماغ جواب دے گیا ہے۔ میں نے سوچا میں تو پہلے ہی اس عورت پر مکمل بھروسہ کر چکا ہوں!‘

ایسے لطیفے شیفرڈ کے بلیک سینس آف ہیومر سے مخصوص ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ سیاہ ترین لمحات میں روشنی کا بندوست نہایت ضروری ہے، اس لیے وہ ان چٹکلوں کو مدافعانہ قوت کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ بتاتے ہیں کہ سپرمارکیٹ کے برف کے تھیلے سے پی ٹی ایس ڈی ہونے کے بعد ’میں نے سپرمارکیٹ پر مقدمہ کرنے کی کوشش کی لیکن بات کچھ آگے بڑھی نہیں۔‘

اسی طرح ہلکے پھلکے انداز میں وہ انکشاف کرتے ہیں کہ چاقو سے ہونے والے جرائم سے آگاہی کی بنا پر وہ اپنے اہل خانہ کے لیے شام کا کھانا تیار کرنے کے دوران گوشت کاٹتے ہوئے چاقو استعمال کرنے کے مختلف نظریات کو آزمایا کرتے تھے۔ ’ایسا نہیں کہ میں ہر اتوار روسٹ گوشت پر مختلف انداز میں چاقو استعمال کروں لیکن یقیناً بچے مجھے کئی بار ایسا کرتے ہوئے دیکھ چکے ہیں۔ آپ ایسی چیزوں کو اور کہاں آزما سکتے ہیں؟ کس لیے کوئی موقع گنوا دیا جائے؟‘

اگرچہ وہ پی ٹی ایس ڈی سے تقریباً جان چھڑا چکے ہیں لیکن شیفرڈ کے بقول ان مسائل کے بارے میں بات کرنا ان کے لیے نفسیاتی آرام کا باعث ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ طبی ماہرین کو ایسی افسوس ناک صورت حال کا سامنا کرنے کے بعد ان کے اپنے آلات پر ہی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ سرکاری رویہ ایسا لگتا ہے کہ ’ڈاکٹر، خود ہی اپنا علاج کرو۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2017 میں ریٹائرمنٹ سے پہلے کام پر اس لیے جانے والے تاکہ اپنے آپ پر ثابت کر سکیں کہ وہ تندرست ہیں، شیفرڈ کہتے ہیں بطور پیتھالوجسٹ اپنی یا کسی اور کی حماقت سے مرنے والے افراد کو روزانہ کی بنیاد پر دیکھنے کے بارے میں اپنے جذبات کے اظہار میں ہم ماضی میں یا کسی حد تک اب بھی بہت برے واقع ہوئے ہیں۔ جی ہاں، آپ کو ہمدردی کا دروازہ بند کر کے پیشہ ورانہ رویہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ لیکن کسی نہ کسی طرح ہمیں یہ تسلیم کرنے کا موقع بھی چاہیے ہوتا ہے کہ ایک ایسی دس سالہ بچی جسے اس کے والد نے بری طرح مارا اور ریپ کیا اس کا پوسٹ مارٹم کرنا ہمارے لیے ایک بہت مشکل مرحلہ تھا اور اس نے ہمیں بہت پریشان کیا۔‘

مسئلہ یہ ہے کہ ’یہ ایسا کام ہے جس میں خوفناک حد تک مردانگی اور بظاہر مضبوط نظر آنے کا تاثر دینا پڑتا ہے۔ ہر شخص سے بہادری کی توقع کی جاتی ہے۔ پیتھالوجسٹ کے لیے مدد طلب کرنے کا کوئی آسان راستہ نہیں۔ لیکن یہ انتہائی تکلیف دہ ملازمت ہے اور ہمارے لیے امداد میسر ہونی چاہیے۔ آپ پیسوں کی بات کر رہے ہیں مگر ہوم آفس ہمارے اخراجات کا معاوضہ ادا کرتے ہوئے شدید پس و پیش سے کام لیتا ہے۔ وہ لاکھوں روپے خرچ کردیں گے لیکن ہم پر معمولی رقم نہیں۔‘

غیر فطری وجوہات اور حال ہی میں شائع ہونے والی موت کے سات ادوار جیسی اپنے کیرئیر پر مشتمل دو بیسٹ سیلر کتابوں کے مصنف شیفرڈ اب اپنی زندگی کی کہانی سامعین کی زیادہ بڑی تک پیش کرنے جا رہے ہیں۔ وہ غیر فطری وجوہات کے نام سے ہی براہ راست سفر شروع کرنے جا رہے ہیں۔ وہ پانچ اکتوبر بروز منگل سے شریوزبری کے مقام سے ملک بھر کا دورہ شروع کریں گے جہاں سامعین کو اپنے دانائی بھرے واقعات اور مزاح کے مخصوص انداز سے محظوظ کریں گے۔

ایسے شاندار کیریئر کے باوجود ڈاکٹر تسلیم کرتے ہیں کہ براہ راست سامعین کے سامنے گفتگو کرنے سے ان پر گھبراہٹ طاری ہو جاتی ہے۔ ’چھ ماہ قبل یہ سفر بہت زبردست خیال لگتا تھا۔ لیکن ایک ماہ قبل میں سوچ رہا تھا کہ کسے لگا تھا کہ یہ کبھی بھی معقول خیال ہو سکتا ہے؟ صبح دو بجے پوری طرح چوکنے لمحات میں میں نے خود سے کہا آخر میں اس کے لیے رضامند ہوا ہی کیوں تھا؟ یہ سفر کیسا رہے گا؟ جب چار نومبر کو یہ ختم ہو گا تب دوبارہ مجھ سے پوچھیے گا۔‘

شمالی انگلستان میں واقع چیشائر کاؤنٹی میں رہائش پذیر، دو جیک رسل کتوں اور شہد کے کئی چھتوں کے قابل فخر مالک شیفرڈ کے پاس محفل میں سماں باندھنے اور بڑی تعداد میں لوگوں کی توجہ سمیٹنے والی کہانیوں کی کمی نہیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے شہزادی ڈیانا کا پوسٹ مارٹم کیا اور 2004 میں ان کی موت کی پولیس انکوائری کے تمام شواہد کا جائزہ لیا۔

ان کی رپورٹ کے مطابق 31 اگست 1997 کو پیرس میں پون دیل آلما کی سرنگ میں گاڑی کو حادثہ اس لیے پیش آیا کیونکہ ڈرائیور ہنری پال شراب میں دھت تھے۔

ان کا سب سے زیادہ قابل توجہ دعویٰ یہ ہے کہ اگر اس دن شہزادی محض سیٹ بیلٹ باندھ لیتیں تو اپنے بیٹوں شہزادے ولیم اور شہزادے ہینری کی شادیوں میں شرکت کرتیں۔ اگر شہزادی نے ایسا کیا ہوتا تو ’ان کی آنکھ سوج جاتی یا ممکن ہے بازو ٹوٹ جاتا،‘ لیکن زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ موت سے بچ جاتیں۔

ریٹائرمنٹ کے بعد خطرناک سرگرمیوں میں برابر حصہ لینے والے اور سپٹ فائر جہاز اڑانے والے، جس کے وہ شریک مالک بھی ہیں، شیفرڈ کہتے ہیں ’بیلٹ نہ باندھنا ہی ڈیانا اور دودی الفاید کی موت کا سبب بنا اور جب گاڑی رکی اس وقت بھی وہ ایسا نہ کر سکے۔ ان کے حفاظتی انتظامات کا بندوست کرنے والے کچھ افراد نے مجھے بتایا کہ شاہی خاندان سیٹ بیلٹ باندھنا پسند نہیں کرتا کیونکہ وہ اسے عامیانہ سرگرمی گردانتا ہے۔ وہ سیٹ بیلٹ باندھنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں یہ غلط تاثر اجاگر کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے اس افسوس ناک واقعے میں بھی ایسا ہی ہوا۔

’وہ دو جوان لوگ رات کو باہر گھومنے کے لیے نکلے۔ حادثہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ لیکن پھر وہی بات کہ کسی کے بھی وہم و گمان میں نہیں ہوتا۔ میں نے اپنے پورے کیریئر میں یہ دیکھا ہے۔ ڈیانا کئی چیزوں میں منفرد تھیں لیکن بدقسمتی سے وہ غلط وقت پر غلط کام کرنے میں منفرد نہیں تھیں۔‘

وہ اپنی بات جاری رکھتے ہیں، ’میں نے بہت سارے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ گاڑیوں کے حادثات میں مر جاتے ہیں اور یہ ہمیشہ بہت افسوس ناک ہوتا ہے۔ لیکن اگر انہوں نے مختلف سوچا یا مختلف رویہ اپنایا ہوتا تو شاید وہ بچ گئے ہوتے۔ گاڑی چلاتے ہوئے لوگوں کو موت کے منہ میں نہیں جانا چاہیے۔ میں نے موت کو ہر المناک رنگ میں دیکھا ہے۔ بعض اوقات یہ محض اتفاق ہوتا ہے۔ بعض اوقات ہوائی جہاز سے برف کا ٹکڑا گر کر آپ کے سر پر آن ٹکراتا ہے۔ لیکن زیادہ تر یہ ذاتی انتخاب کا نتیجہ ہوتا ہے۔‘

اس سانحے میں جو حقیقت ملال کا رنگ گہرا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ڈیانا ایسی چوٹوں سے ہلاک ہوئیں جو پہلی نظر میں نسبتاً معمولی معلوم ہوئی تھیں۔ شیفرڈ کہتے ہیں، ’یہ بہت افسوس ناک بات ہے کہ وہ اتنی معمولی چوٹوں سے جانبر نہ ہو سکیں۔ تمام ڈاکٹر ایسی چوٹوں سے نفرت کرتے ہیں۔ وہ زیادہ واضح زخم کو پسند کرتے ہیں جس کی فوراً نشان دہی اور علاج کر سکیں۔ جب چوٹیں پوشیدہ ہوں یہ زیادہ مشکل کام ہو جاتا ہے۔‘

جب پولیس حادثے کے مقام پر پہنچی تو ’بظاہر ڈیانا باتیں کر رہی تھیں۔ ہنری اور دودی پہلے ہی مر چکے تھے۔ تاہم جو باڈی گارڈ ٹریور ریس جونز زخموں سے چور تھے، وہ آج بھی زندہ ہیں۔ اس لیے فوری طبی امداد کی زیادہ توجہ ان پر رہی کیونکہ ان کی زندگی زیادہ خطرے میں تھی اور کسی کو اندازہ ہی نہیں ہوا کہ ڈیانا کس بری طرح متاثر ہوئی تھیں۔

تاہم شیفرڈ کی واضح طور پر انتہائی باریک بینی سے کی گئی انکوائری بھی ڈیانا کی موت سے جڑے لامتناہی سازشی نظریات کا سلسلہ کم نہ کر سکی۔ ’ہماری انکوائری نے ثابت کیا کہ ہنری پال شراب میں دھت تھے اور جب آپ نے پی رکھی ہو تو مرسیڈیز کو اتنی تیز رفتار سے نہیں چلانا چاہیے۔‘

نام نہاد ’تھیلے والا جاسوس‘ (Spy in the bag) گیرتھ ولیمز اور ڈاکٹر ڈیوڈ کیلی کے کیسوں پر تحقیق کے دوران ایسے ہی رجحانات کا مشاہدہ کرنے والے شیفرڈ کہتے ہیں، ’ظاہر ہے سازشی نظریہ ساز کبھی ختم نہیں ہوتے۔ وہ کچھ وقت کے لیے منظر سے ہٹتے ہیں اور دوبارہ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ سازشی نظریہ ساز کبھی بھی سچ کو تسلیم نہیں کریں گے۔ وہ کہیں گے ’یہ رپورٹ اسٹیبلشمنٹ نے مرتب کی ہے تو ظاہر ہے وہ ایسا ہی کہے گی، کیا ایسا وہ نہیں کہے گی؟‘

شہزادی ڈیانا کیس سے شیفرڈ کے کام کو تاریخی اہمیت ملی۔ ’میں اس طرح کے واقعات میں عدالتی گواہی کے دوران زیادہ گھبراتا ہوں کیونکہ آپ کو اندازہ ہوتا ہے وہ کس قدر اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ آپ گواہوں کے کٹہرے میں جا کر غلطی کرنا یا خدا نخواستہ ایسی بات نہیں کرنا چاہتے جس سے ملزم کو فائدہ پہنچے اور اس پر جرم ثابت نہ ہو سکے اور اس بات کا بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے۔ جب آپ شہزادی ڈیانا جیسے اہم مقدمے میں شواہد فراہم کر رہے ہوں تو آپ کو علم ہوتا ہے کہ لوگوں کی نظریں اس پر لگی ہیں اور آپ کسی بھی طرح کوئی شرمندگی نہیں اٹھانا چاہتے۔‘

پیتھالوجسٹ نے اپنے کندھوں پر اس وقت بھی ایسا ہی بوجھ محسوس کیا جب نائن الیون کے حادثے میں ہلاک ہونے والے افراد کا پوسٹ مارٹم کر رہے تھے۔ ’مجھے تب واقعی ایسا لگا کہ میں تاریخ کا حصہ بن گیا ہوں۔ ایسے بڑے واقعے کے بعد کون ہو گا جو یہ نہ سمجھتا کہ وہ تاریخ کا حصہ بن گیا ہے؟ یہ ایسا ہی تھا، بہت تباہ کن۔ نیو یارک میں میرے بعض ہم پیشہ ساتھیوں نے جہاز ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکراتے ہوئے دیکھے تھے۔ انکوائری کا سربراہ وہاں موجود یہ مشاہدہ کر رہا تھے کہ جب عمارتیں گرتی ہیں تو لوگ کیا کرتے ہیں اور وہ خود بھی زخمی ہوئے۔ وہ سب بری طرح المیے سے دوچار تھے۔ کون ہو گا جو اس سے متاثر نہیں ہوا ہو گا؟

’نائن الیون نے صحیح معنوں میں دنیا کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ ایک احساس تھا کہ قوموں کی ارضیاتی پرتیں (tectonic plates) اوپر نیچے کر دی گئی ہیں۔ دہشت گردوں نے طیارے اغوا کر کے اور انہیں عمارتوں سے ٹکرا کر ہر طرف خوف اور صدمہ پھیلا دیا۔ لیکن فرانزک پیتھالوجی کے مخصوص شعبے میں نائن الیون کی وجہ سے انتہائی بڑے پیمانے پر ترقی ہوئی۔ آپ کیسے تین ہزار افراد کی ہلاکتوں سے نمٹتے ہیں۔ آپ جسمانی چیتھڑوں کو کیسے سنبھالتے ہیں؟

جب 2005 کے لندن دھماکوں کا موقع آیا تو میں اپنے ساتھیوں سے یہ کہنے کے قابل تھا ’ذرا رکو، میں نے نائن الیون سے یہ سیکھا ہے ممکن ہے یہاں بھی سود مند ثابت ہو۔‘

اپنے پورے کیرئیر کے دوران شیفرڈ اس افتخار کے ساتھ جیے کہ ایمانداری بہترین حکمت عملی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی بیماری سے متعلق بہت کھل کر بات کرتے ہیں۔ ’یقیناً میں نے غیر فطری وجوہات میں میں نے اپنے متعلق سب کچھ ہی نہیں بتا دیا۔ ابھی تک کچھ خفیہ گوشے باقی ہیں۔ میں آپ کو نہیں بتانے جا رہا کہ میں نے اپنی ایک پرانی گرل فرینڈ کے ساتھ بیپٹسٹ چرچ کے پچھلی جانب راہ گزر میں کیا کیا۔

’لیکن میرا خیال ہے جب آپ اپنی آپ بیتی لکھ رہے ہوں یا براہ راست سامعین کے سامنے ہوں تو آپ کو ممکنہ حد تک کھل کر بات کرنی چاہیے۔ بطور ڈاکٹر میرا خیال ہے ہمیں اپنے متعلق بات کرتے ہوئے کہنا چاہیے کہ میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا اور اس دوران میں نے یہ محسوس کیا۔

جب متاثرہ شخص کے عزیز و اقارب سے بات کرنے کا ذکر ہو تو وہ اتنے ہی صاف گو ہیں۔ ’میں اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہوں کہ سچ بہت اہم ہے۔ اگر انہیں ساری بات پتہ ہے تو پھر ٹھیک ہے۔ اگر ساری بات انہیں معلوم نہیں تو ایک فاصلہ در آئے گا اور وہ آپ کی کسی بات پر یقین نہیں کریں گے۔‘

شیفرڈ کی ایک اور خوبی ان کا پیدائشی قصہ گو ہونا ہے جس کی وجہ سے وہ براہ راست کہانی سنانے کے میدان میں نمایاں مقام پر ہوں گے۔ اپنے غیر فطری وجوہات والے دورے سے متعلق میری پیشگی تشخیص؟ یہ گھر سے باہر موج مستی کرتے گزری شاندار رات ہو گی۔

جس کی وجہ سے وہ کسی تھیئٹر میں لوگوں کے سامنے بھی پرفارم کرنا چاہیں تو اس میں بھی کامیاب ہوں گے۔

 میرا پیشگی اندازہ ہے کہ اپنی کتاب ’غیر فطری وجوہات (Unnatural Causes) کے تشہیری دورے کے دوران لوگوں کو خوب تفریح فراہم کریں گے۔

جاتے جاتے میں شیفرڈ کو ان کی زنبیل میں موجود قسم قسم کے چٹکلے اور قصے کہانیوں پر داد دیتا چلوں۔ وہ یہ موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور آخر میں اپنے خلاف ہی ایک لطیفہ سنا جاتے ہیں: ’جب بھی میں کوئی کہانی سناتا ہوں تو میرے گھر والے اکتا کر جمائیاں لینے لگتے ہیں۔ بلکہ میرے گھر میں صرف میرے کتے ہی ہیں جو میری کہانیاں شوق سے سنتے ہیں کیوں کہ انہیں مجھ سے کھانے کی کسی چیز کی توقع ہوتی ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت