پاکستانی ڈاکٹر بیرون ممالک کیوں جاتے ہیں؟ 

’سرکار سمجھ لیتی ہے کہ وہ ہمیں نوکری دے کر احسان کر رہی ہے جبکہ مریض یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے ملازم ہیں اور ذرا سی غلطی کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔‘

اس وقت پاکستان میں چار لاکھ ڈاکٹروں کی کمی ہے لیکن وہ پھر بھی ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں (اے ایف پی)

حال ہی میں وزارت سمندر پار پاکستانیوں اور افرادی قوت کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک ٹویٹ میں 196 ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل سٹاف کی کویت جانے سے قبل کی تصاویر شئیر کی گئیں۔

اس ٹویٹ کو وزیراعظم کے سابق مشیر برائے سمندر پار پاکستانیوں اور افرادی قوت زلفی بخاری کی طرف سے بھی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پوسٹ کیا گیا اور اس پر بڑے فخریہ انداز میں شکر ادا کیا گیا کہ پاکستان سے کویت جانے والے ڈاکٹروں اور دیگر پیرا میڈیکل اسٹاف کی تعداد ایک ہزار ہو گئی ہے۔

مگر بجائے تحسین کے ان کو اس پر خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ لوگوں کے مطابق جس سیاسی جماعت کا سربراہ اور اسے دیگر سیاسی رہنما یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے تھے کہ جب ان کی حکومت آئے گی تو باہر کے ممالک میں مختلف شعبہ جات سے منسلک پاکستانی اپنے وطن واپس آئیں گے اور آکر ملک کی خدمت میں اپنا حصہ ڈالیں گے، اب اسی سیاسی جماعت کی حکومت میں ان کا ایک سیاسی رہنما یہاں سے ڈاکٹروں کے بیرون ملک جانے کو اپنی کامیابی گردان کر اس پر خوشی کے شادیانے بجا رہا ہے۔

اسی ضمن میں ایک امریکی ڈاکٹر کی ویڈیو بھی عمران خان صاحب کے وزیراعظم بننے کے کچھ عرصہ بعد منظر عام پر آئی تھی جس میں وہ اپنے خاندان سمیت وطن واپس آنے کا عزم ظاہر کر رہے تھے۔ لیکن وہ موصوف اور ان جیسے دیگر کئی ایسے ڈاکٹر وطن واپس تو نہیں لوٹے۔ بلکہ الٹا یہاں سے بیرون ملک جانے والے ڈاکٹروں کی تعداد میں اضافہ ضرور ہو گیا ہے۔

اکنامک سروے آف پاکستان 21-20 کے مطابق اس وقت پاکستان میں رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد تقریباً 245,987 ہے، جن میں 110,000 لیڈی ڈاکٹر ہیں، مگر شادی اور گھریلو مجبوریوں کی بنا پر تقریباً 60 فیصد خواتین تو اپنے پیشے میں کام ہی نہیں کر پاتیں۔

ادھر وزارت سمندر پار پاکستانیوں اور افرادی قوت کے اعدادو شمار کے مطابق اس وقت تقریباً 40 ہزار سے زائد ڈاکٹر بیرون ملک کام کررہے ہیں۔ اگر اس وقت پاکستان کی آبادی کے حساب سے دیکھا جائے تو ہمیں چار لاکھ سے اوپر ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔ 

یعنی جہاں پر ایک ہزار لوگوں کے لیے ایک ڈاکٹر ہونا چاہیے وہاں پر ڈاکٹروں کی کمی کے باعث ہمارے ہاں دو ہزار سے اوپر لوگوں کے لیے ایک ڈاکٹر موجود ہے۔ تو اصولی طور پر یہ ہونا چاہیے کہ ہمارے ڈاکٹر باہر جانے کی بجائے پہلے یہاں پر کام کریں۔ لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ وہ یہاں کام کرنے کی بجائے باہر جانے کو ترجیح دیتے ہیں؟ اس کی سب سے بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں صحت پر جی ڈی پی کا صرف 1.2 فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔ جو کہ اقوام متحدہ کے مطابق پانچ فیصد ہونا چاہیے۔ تو یہاں پر سرکاری سطح پر صحت کی سہولیات کی کمی کے علاوہ ڈاکٹروں کو جتنے پیسے دیے جاتے ہیں اس سے دگنا کام بھی لیا جاتا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس بارے میں جب ایک بنیادی صحت مرکز سے منسلک ایک ڈاکٹر سے رائے لی گئی تو انہوں نے بتایا کہ بات صرف پیسوں کی ہی نہیں ہے۔ بات عزت اور سکون کی بھی ہے۔ ہمارے ہاں جو بھی ڈاکٹرز سرکاری سطح پر کام کرتے ہیں ان کو نہ تو سرکار کی طرف سے عزت دی جاتی ہے اور نہ ہی مریضوں کی طرف سے۔ سرکار بس یہ سمجھ لیتی ہے کہ وہ ہمیں نوکری دے کر احسان کر رہی ہے جبکہ مریض یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے ملازم ہیں اور ذرا سی غلطی کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ بلکہ دیگر پیرا میڈیکل سٹاف کی غلطیاں بھی ڈاکٹروں کے سر پر تھوپ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر دور دراز علاقوں میں کام کرنے سے کتراتے ہیں۔ 

یہی وجہ ہے کہ اکثر ڈاکٹروں کی کوشش ہوتی ہے کہ یا تو کسی بڑے شہر کے کسی بڑے ہسپتال میں ان کو ملازمت مل جائے یا پھر وہ باہر چلے جائیں، جہاں پر ان کو پیسے بھی اچھے ملیں گے، اپنی ڈیوٹی سے زائد کام بھی نہیں کرنا پڑے گا اور عزت بھی ملے گی۔

ہم نے اس مسئلے پر روشنی ڈالنے کی خاطر ایک ایسے ڈاکٹر سے بات کی جو امریکہ جا کر اور سیٹل ہونے کے بعد واپس آ گئے۔ ان کا نام ڈاکٹر علی مدیح ہاشمی ہے، جو کہ اس وقت میو ہسپتال لاہور کے شعبہء نفسیاتی امراض کے سربراہ ہیں۔ 

انہوں نے بتایا کہ ’میں بھی نوجوان ڈاکٹروں کی طرح یہاں کے حالات سے تنگ آکر امریکہ چلا گیا تھا، وہاں پر خوب محنت اور کچھ اچھے دوستوں کی مدد سے کچھ ہی سالوں میں بہت اچھا نام بنا لیا تھا۔ لیکن اتنا پیسہ اور عزت کے باوجود بھی اکثر اپنے خاندان اور ملک کے لوگوں کا خیال آ جاتا تھا۔‘

اسی بات نے ان کو آخر یہ مشکل فیصلہ کرنے پر مجبور کیا اور وہ اپنے باس کی ہر طرح کی پیش کش کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے وطن واپس آ گئے۔

ان کے مطابق بد قسمتی سے اب بھی پاکستان کے سرکاری شعبہ میں ڈاکٹروں کے لیے حالات اچھے نہیں ہیں۔ اس کے لیے حکومت کو کئی ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ جن میں صحت کے بجٹ میں اضافہ کرنا، سرکاری ہسپتالوں اور بنیادی صحت مراکز کی تعداد کو بڑھانا، ڈاکٹروں کو اچھی تنخواہ اور مراعات کی فراہمی تاکہ وہ پرائیویٹ سیکٹر کی بجائے سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے کو ترجیح دیں اور نیم حکیموں کے خلاف سخت اقدامات لینا شامل ہیں۔

ڈاکٹر ہاشمی کے مطابق ڈاکٹروں کو بھی اپنی سوچ میں کچھ تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ میڈیکل کے شعبہ میں آ گئے ہیں تو اس کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے اپنے ذاتی مفادات پر لوگوں کے اجتماعی مفادات کو ترجیح دینے کی بھی کوشش کریں، کیونکہ سرکار اور ڈاکٹروں کے اس رویہ کا خمیازہ اس ملک کے غریب آدمی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ وہ پرائیویٹ مہنگے ہسپتالوں میں جا نہیں سکتا اس لیے اسے یا تو سرکاری ہسپتالوں میں دھکے کھانا پڑتے ہیں اور یا پھر نیم حکیموں کے ہتھے چڑھنا پڑتا ہے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ