مصنوعی ذہانت کے چیٹ بوٹ چیٹ جی پی ٹی کو جی پی ٹی فائیو کی شکل میں بڑی اپ ڈیٹ مل گئی ہے۔
جی پی ٹی ماڈلز مصنوعی ذہانت کی وہ ٹیکنالوجی ہیں جو چیٹ جی پی ٹی کی بنیاد ہیں۔ چیٹ جی پی ٹی بنانے والی کمپنی اوپن اے آئی کا کہنا ہے کہ نئے ورژن کو چیٹ جی پی ٹی کے تمام 70 کروڑ صارفین کے لیے دستیاب کیا جائے گا۔
جی پی ٹی کا گذشتہ بڑا ورژن فور 2023 میں جاری کیا گیا تھا، تاہم اوپن اے آئی اس کے بعد سے کئی چھوٹے اپ ڈیٹس بھی متعارف کروا چکی ہے۔
اوپن اے آئی نے ایک ہی وقت میں اس نئے ماڈل کو انقلابی اور محفوظ قرار دینے کی کوشش کی۔ کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو سیم آلٹ مین نے اس ممکنہ بڑی اپ ڈیٹ کے بارے میں میمز بھی پوسٹ کیں لیکن تعارف میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ یہ سسٹم اب بھی انسانوں کی جگہ لینے سے بہت دور ہے۔
جی پی ٹی فائیو میں کئی نئی خصوصیات شامل کی گئی ہیں جن میں مختلف ماڈلز کو آپس میں جوڑنے کی صلاحیت اور کسی مخصوص مسئلے پر مزید محنت کی ضرورت ہو، تو اس کا خود فیصلہ کرنا بھی شامل ہے، لیکن اوپن اے آئی نے کہا ہے کہ اس میں کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے بھی کئی اپ گریڈز کیے گئے ہیں، جن میں سافٹ ویئر کوڈ لکھنے کی بہتر صلاحیت بھی شامل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اوپن اے آئی اور دیگر بڑی اے آئی کمپنیوں کو اس حوالے سے سوالات کا سامنا ہے کہ آیا ان کی مصنوعات اس کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا حق ادا کر پائیں گی جس کا وہ مطالبہ کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر مائیکروسافٹ نے کہا ہے کہ یہ نیا سسٹم اس کی مختلف مصنوعات میں دستیاب ہو گا، جیسے کہ اس کا کوپائلٹ اے آئی اسسٹنٹ۔
اوپن اے آئی خاص طور پر جی پی ٹی فائیو کے کاروباری استعمال پر زور دے رہا ہے۔ کمپنی نے کہا ہے کہ سافٹ ویئر بنانے کے علاوہ جی پی ٹی فائیو تحریر، صحت سے متعلق سوالات اور مالیات میں بھی بہترین کارکردگی دکھاتا ہے۔
اوپن اے آئی کے چیف ایگزیکٹیو سیم آلٹ مین نے پریس بریفنگ میں کہا کہ ’جی پی ٹی فائیو واقعی پہلی بار ایسا ماڈل ہے جس کے بارے میں مجھے لگتا ہے کہ آپ کسی حقیقی ماہر، پی ایچ ڈی سطح کے ماہر، سے کچھ بھی پوچھ سکتے ہیں۔
'اس کی سب سے زبردست خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ یہ آپ کے لیے فوراً اچھا سافٹ ویئر کوڈ لکھ سکتا ہے۔ مطالبے پر سافٹ ویئر کا یہ تصور جی پی ٹی فائیو کے دور کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک ہو گا۔‘
کامیابی کا ایک اہم معیار یہ ہے کہ جی پی ٹی فور سے جی پی ٹی فائیو کی طرف پیش رفت اسی معیار کی ہو، جیسی اس ریسرچ لیب کے گذشتہ اپ ڈیٹس میں نظر آئی۔
دو ابتدائی مبصرین نے روئٹرز کو بتایا کہ اگرچہ یہ نیا ماڈل انہیں کوڈنگ اور سائنس و ریاضی کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت میں متاثر کن لگا لیکن ان کے خیال میں جی پی ٹی فور سے جی پی ٹی فائیو تک جتنی ترقی ہوئی وہ اوپن اے آئی کی ماضی میں ہونے والے اپ ڈیٹس کی طرح بڑی نہیں۔
تقریباً تین سال پہلے چیٹ جی پی ٹی نے لوگوں کو جنریٹیو اے آئی سے متعارف کروایا اور اپنی انسان جیسی نثر و شاعری لکھنے کی صلاحیت سے صارفین کو حیران کر دیا، حتیٰ کہ یہ سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی ایپس میں شامل ہو گیا۔
مارچ 2023 میں اوپن اے آئی نے چیٹ جی پی ٹی کے بعد جی پی ٹی فور جاری کیا، جو زبان کا بڑا ماڈل تھا اور اس نے مصنوعی ذہانت کے میدان میں زبردست پیش رفت کی۔
جی پی ٹی 3.5 جو ایک پرانا ورژن ہے، نے قانون کے امتحان میں 10 فیصد میں سب سے کم کامیابی حاصل کی جب کہ جی پی ٹی فور نے مشق کے لیے تیار کیے گئے قانون کے امتحان میں سب سے اوپر 10 فیصد میں کامیابی حاصل کی۔
جی پی ٹی فور کی یہ پیش رفت پروسیسنگ کی زیادہ صلاحیت اور ڈیٹا کی بنیاد پر تھی۔ کمپنی کو امید تھی کہ اسی طرح ’صلاحیت میں بہتری‘ سے مسلسل بہتر اے آئی ماڈلز بنائے جا سکیں گے۔
لیکن اوپن اے آئی کو منصوعی ذہانت کا ماڈل بہتر بنانے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک مسئلہ وہ ڈیٹا وال تھی جس سے کمپنی کو واسطہ پڑا۔ اوپن اے آئی کے سابق چیف سائنٹسٹ ایلیا سٹس کیور نے گذشتہ سال کہا تھا کہ پروسیسنگ پاور تو بڑھ رہی ہے لیکن ڈیٹا کی مقدار نہیں بڑھ رہی۔
ان کا اشارہ اس حقیقت کی طرف تھا کہ زبان کے بڑے ماڈلز کو پورے انٹرنیٹ سے جمع کیے گئے بہت بڑے ڈیٹا سیٹس کی مدد سے تربیت دی جاتی ہے اور اے آئی لیبز کے پاس انسان کے تحریر کردہ بڑے ڈیٹا کا کوئی اور ذریعہ نہیں۔
جی پی ٹی راؤٹر کے طور پر کام کرتا ہے، یعنی اگر کوئی صارف جی پی ٹی فائیو سے کوئی خاص مشکل سوال پوچھے تو یہ اس سوال کا جواب دینے کے لیے اضافی کمپیوٹر صلاحیت اور وسائل استعمال کرتا ہے۔
پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ عام لوگوں کو اوپن اے آئی کی ٹیسٹ ٹائم کمپیوٹ ٹیکنالوجی تک رسائی ملے گی، جسے آلٹ مین نے پوری انسانیت کے فائدے کے لیے بنائے گئے اے آئی کے مشن کا اہم حصہ قرار دیا۔
آلٹ مین کی رائے میں اے آئی میں ہونے والی سرمایہ کاری اب بھی ناکافی ہے۔
انہوں نے کہا: ’ہمیں دنیا بھر میں بہت زیادہ بنیادی ڈھانچہ تعمیر کرنا ہو گا تاکہ اے آئی ہر شعبے میں مقامی سطح پر دستیاب ہو سکے۔‘
اس رپورٹ کی تیاری میں خبر رساں اداروں سے اضافی مدد لی گئی۔
© The Independent