پولی گراف ٹیسٹ کیا ہے اور اس کی قانونی حیثیت کیا ہے؟

جمعے کو ہونے والے پولی گراف ٹیسٹ کے دوران ظاہر جعفر سے 20 سوال پوچھے گئے، تاہم وہ ٹیسٹ کے دوران مختلف حیلوں بہانوں سے کام لیتے رہے اور اس دوران انہوں نے بےہوشی کی اداکاری بھی کی۔

امریکی میں پولی گراف ٹیسٹ بہت عام ہیں (

United States Forces Iraq)

نور مقدم کے قتل کے ملزم ظاہر جعفر کا لاہور کی فورینزک لیب میں پولی گراف ٹیسٹ کروایا گیا ہے جس کے بعد یہ سوال اٹھا ہے کہ یہ ٹیسٹ ہے کیا اور اس کی افادیت کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق جمعے کو ہونے والے اس ٹیسٹ کے دوران ملزم سے 20 سوال پوچھے گئے، تاہم وہ ٹیسٹ کے دوران مختلف حیلوں بہانوں سے کام لیتے رہے اور اس دوران انہوں نے بےہوشی کی اداکاری بھی کی۔

 ملزم اس مقصد کے لیے خاص طور پر لاہور کی فوریزنک لیبارٹری لے جایا گیا اور ان کے پولی گراف ٹیسٹ کی رپورٹ اسلام آباد پولیس کو بھجوائی جائے گی۔

اس موقعے پر سوال اٹھتے ہیں کہ یہ ٹیسٹ ہے کیا، اور کیا پاکستانی عدالتیں اسے بطور شہادت تسلیم کرتی بھی ہیں یا نہیں۔

کیا کوئی مشین جھوٹ سچ کا فیصلہ کر سکتی ہے؟

پولی گراف ٹیسٹ یا جھوٹ پکڑنے کا ٹیسٹ ایک ایسی مشین کی مدد سے کیا جاتا ہے جو انسان کے جسم میں پیدا ہونے والی مختلف طبعی تبدیلیوں کی مدد سے اس بات کا تعین کرتی ہے کہ آیا وہ سچ بول رہا ہے یا جھوٹ۔

پولی گراف ٹیسٹ میں ملزم کے ہاتھوں کے ساتھ ایک مخصوص مشین کی تاریں لگا دی جاتی ہیں جو اس کے جسم کے افعال چیک کر کے انہیں ریکارڈ کرتی رہتی ہے۔ اس دوران ایک یا ایک سے زیادہ ماہر تفتیش کار ملزم سے سوال پوچھتے رہتے ہیں اور ساتھ ہی مشین پر بھی نظر رکھتے ہیں کہ ملزم کے جوابوں کے دوران مشین کیا دکھا رہی ہے۔

اس ٹیسٹ کے پیچھے نظریہ یہ ہے کہ سچ بولتے وقت انسان کا جسم معمول کے مطابق کام کرتا رہتا ہے، جب کہ جھوٹ بولتے وقت اس کے جسم اور دماغ کے اندر کشمکش چل رہی ہوتی ہے، اسے کچھ دیر تک سوچنا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کے دل کی دھڑکن، خون کا دباؤ، سانس کی رفتار وغیرہ بڑھ جاتے ہیں اور جلد پر ہلکے سے پسینے کی تہہ آ جاتی ہے۔ یہ ساری علامات پولی گراف مشین کی مدد سے ناپی جا سکتی ہیں، اور ان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آیا یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے یا سچ۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حالیہ برسوں میں ایک نئی قسم کی پولی گراف مشین بھی متعارف کروائی گئی ہے جس میں جسم کی بجائے دماغ کی سرگرمی کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ یہ مشین ٹیسٹ کے وقت ایم آر آئی مشین کی طرح دماغ کا سکین کرتی ہے۔ اس کے پیچھے خیال یہ ہے کہ جب انسان کوئی ایسا واقعہ بیان کر رہا ہوتا ہے جس سے وہ ذاتی طور پر گزرا ہے تو اس کا دماغ ایک خاص طریقے سے ردِ عمل دکھاتا ہے، لیکن اگر وہ کوئی من گھڑت بات کر رہا ہے، جس کا اسے ذاتی تجربہ نہیں ہوا، تو دماغ مختلف برتاؤ کرتا ہے جسے اس مشین کی مدد سے پرکھا جا سکتا ہے۔

پولی گراف ٹیسٹ صرف پولیس ملزموں کا بیان ریکارڈ کرتے ہوئے استعمال نہیں کرتی، بلکہ انہیں مختلف اداروں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے، مثلاً امریکہ میں بعض حساس اداروں میں ملازموں کو بھرتی کرتے ہوئے ان کی سکریننگ کے لیے پولی گراف ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔

پولی گراف ٹیسٹ کتنا قابلِ اعتبار ہے؟

جب سے یہ ٹیسٹ وجود میں آیا ہے اسی وقت سے اس کی ساکھ پر سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ لیکن موجودہ دور میں بیشتر سائنسی اداروں کا خیال ہے کہ یہ ٹیسٹ ناقابلِ اعتبار ہے۔

امیریکن سائیکالوجیکل ایسوسی ایشن کے مطابق پولی گراف ٹیسٹ پر سچ یا جھوٹ کو پکڑنے کے لیے اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق پولی گراف کے ماہر اور امریکہ کی برینڈیس یونیورسٹی کے ماہرِ نفسیات پروفیسر لیونارڈ سیکس کہتے ہیں کہ ’دھوکہ دہی کی نوعیت ایسی ہے کہ کسی شخص کے مجرمانہ برتاؤ کے بارے میں فیصلہ صادر کرنے کا کوئی اچھا طریقہ موجود نہیں ہے۔ دھوکہ دہی کے لیے جسم کوئی منفرد ردِ عمل نہیں ہوتا۔‘

اس کے علاوہ امریکہ کی نیشنل ریسرچ کونسل نے ایک پینل نے 2003 میں پولی گراف کا جائزہ لینے کے بعد رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا کہ پولی گراف ٹیسٹ کی کوئی افادیت نہیں ہے۔

سائنس کیا کہتی ہے؟

آپ نے شاید بچپن میں پنوکیو کی کہانی پڑھی ہو جو جب جھوٹ بولتا تھا تو اس کی ناک لمبی ہو جاتی تھی۔ بدقسمتی یا خوش قسمتی سے سائنس کے پاس (فی الحال) ایسا کوئی آلہ نہیں ذہن پڑھ کر یہ بتا سکے کہ کوئی شخص جھوٹ بول رہا ہے یا سچ۔ پولی گراف صرف یہ بتاتا ہے کہ کوئی بات کہتے وقت فلاں آدمی کتنا نروس ہو رہا ہے۔ گویا پولی گراف مشین صرف نروس ہونے کو پکڑ سکتی ہے، لیکن یہ نروس نیس لازماً جھوٹ کی وجہ سے ہے، اس کا جواب نہیں دے سکتی۔ 

اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان صرف جھوٹ بولتے وقت نہیں، بلکہ نفسیاتی دباؤ کے زیرِ اثر ہونے، کسی پریشانی یا کسی ذہنی بیماری کے وقت بھی اس طرح کے جواب دے سکتا ہے جنہیں پولی گراف مشین جھوٹ سمجھ لیتی ہے۔

دوسرے لفظوں میں، یہ مشین جھوٹ کو نہیں، جھوٹ کی علامات کو پکڑتی ہے اور وہ علامات کسی اور وجہ سے بھی ہو سکتی ہیں۔ جیسے تھرمامیٹر بتا سکتا ہے کہ مریض کو اتنے درجے کا بخار ہے، لیکن یہ نہیں بتاتا کہ بخار کیوں ہے۔ یہی حال پولی گراف کا ہے۔ 

دوسری طرف کوئی ماہر دروغ گو اتنے اعتماد سے جھوٹ بول سکتا ہے کہ اس کے جسم میں کوئی طبعی تبدیلی واقع نہ ہو اور مشین کی سوئیاں ٹس سے مس نہ ہو کر دھوکہ کھا جائیں۔

یہی وجہ ہے کہ یہ ٹیسٹ دوسرے شواہد کے ساتھ مل کر کسی سمت میں اشارہ تو ضرور کر سکتا ہے، لیکن واحد شہادت کے طور پر اس کی کوئی حیثیت نہیں۔

پاکستان میں پولی گراف ٹیسٹ کی عدالتی اہمیت کتنی ہے؟

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایڈووکیٹ حیدر سید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستانی قانون کے مطابق پولی گراف ٹیسٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور اسے عدالت میں بطور ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ صرف پولی گراف ہی نہیں بلکہ پولیس کی حراست میں موجود کسی ملزم سے کیے جانے والے اعترافِ جرم کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور عدالت میں ملزم بڑی آسانی سے اس سے انکار کر سکتا ہے۔ البتہ ایک اور نوعیت کا اعترافِ جرم اہم ہوتا ہے جسے میجسٹریٹ کی موجودگی میں کیا جائے۔ اسے 164 کا اعترافی بیان کہا جاتا ہے، تاہم اس کی بعض شرائط ہوتی ہیں، مثلاً اس موقعے پر صرف میجسٹریٹ اور ملزم موجود ہوتے ہیں، اور میجسٹریٹ ملزم کے اعتراف سے قبل وضاحت کرتا ہے کہ ملزم کے بیان کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملزم کو یہ موقع بھی فراہم کیا جاتا ہے کہ وہ بیان دینے کے بعد بھی اس پر سوچ بچار کر لے۔

پولیس نے ظاہر جعفر کا پولی گراف ٹیسٹ کیوں کروایا؟

بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ پولیس کے پاس اس کیس میں ملزم کے خلاف خاصے شواہد موجود ہیں۔ آلۂ قتل بھی برآمد ہو چکا ہے، قتل کا کوئی عینی شاہد نہیں، لیکن گھر کے اندر ملازم اور چوکیدار موجود تھے، جنہوں نے اس دوران ہونے والے واقعات دیکھے، سی سی ٹی وی کی فوٹیج بھی موجود ہے، پولیس نے یقینیاً ڈی این اے شواہد بھی حاصل کیے ہوں گے، اس کے علاوہ وہاں کسی اور شخص کی موجودگی کے شواہد بھی نہیں ملے جس پر قتل کا شبہ کیا جا سکے۔ ان سب باتوں کی بنیاد پر ملزم کے خلاف کیس مضبوط لگتا ہے۔

لیکن پھر پولیس نے ملزم کو بھاری سکیورٹی میں لاہور لے جا کر اس کا پولی گراف ٹیسٹ اٹھانے کی زحمت کیوں اٹھائی؟

ایڈووکیٹ حیدر سید کے مطابق پولیس چاہتی ہے کہ وہ نور مقدم کے قتل کے واقعے کی مکمل تفصیلات حاصل کر کے عدالت کے سامنے پوری تصویر پیش کرے، جس میں قتل کے محرکات، اس دوران پیش آنے والے تمام واقعات، ارتکابِ جرم کی ہر ہر تفصیل اور دوسری تمام جزئیات شامل ہوں، تاکہ اس کی فائل مکمل ہو جائے اور کیس کی فائل میں عدالت کے سامنے تمام پہلوؤں کا احاطہ ہو جائے۔

بظاہر ملزم نے پولیس کے ساتھ مکمل تعاون نہیں کیا اور انہوں نے واقعے کی تفتیش کاروں کو جو تفصیلات بتائی ہیں ان میں اختلاف ہے۔ میڈیا نے ذرائع کے حوالے سے جو خبریں چلائی ہیں ان میں بھی کہا جاتا رہا ہے کہ ملزم نے بار بار اپنا بیان بدلا ہے اور پولیس کو غلط راہ پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔

پولیس پولی گراف ٹیسٹ کی مدد ملزم کے بیان کا تجزیہ کرنا چاہتی ہے کہ اسے معلوم ہو سکے کب کب کیا ہوا، کیسے ہوا، تاکہ عدالت کے سامنے مضبوط اور جھول سے پاک بیانیہ پیش کر سکے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس