27 جولائی کو پیرس اولمپکس میں سائیکلنگ ٹریک پر قدم رکھ کر یلدوز ہاشمی صرف اپنے بچپن کا خواب ہی پورا نہیں کریں گی بلکہ وہ افغانستان کی ان تمام خواتین کے لیے بھی ایک جھنڈا اٹھائیں گی جنہیں کھیلوں کے ان مواقع سے محروم رکھا گیا ہے، جو ان کو اولمپکس میں لے گئے ہیں۔
24 سالہ یلدوز ہاشمی ان تین افغان خواتین ایتھلیٹس میں سے ایک ہیں، جو 2024 کے اولمپکس میں حصہ لے رہی ہیں۔ ان کے علاوہ ان کی چھوٹی بہن 21 سالہ فریبا ہاشمی بھی سائیکلسٹ ہیں اور کیمیا یوسفی ٹوکیو میں گذشتہ اولمپکس میں دوڑ کے مقابلے میں افغانستان کی پرچم بردار تھیں۔
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’اپنے سائیکلنگ کیریئر کے پہلے دن سے، میں نے خواب دیکھا تھا کہ ایک دن میں اولمپکس میں اپنے ملک کی نمائندگی کروں گی اور اب میرا خواب پورا ہو گیا ہے۔ میں اب بہت خوش اور پرجوش ہوں کہ آخر کار میں کھیلوں میں حصہ لے رہی ہوں۔‘
وہ روایتی معنوں میں اپنے وطن کی نمائندگی نہیں کر رہیں، کیونکہ وہاں کی طالبان حکومت انہیں تسلیم نہیں کرتی۔ درحقیقت اسلامی حکومت خواتین کو پبلک مقامات پر کھیل کھیلنے یا سکول جانے کی اجازت نہیں دیتی۔
طالبان کے سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کے ترجمان اتل مشوانی نے رواں ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ فی الحال افغانستان میں خواتین کے کھیلوں کو روک دیا گیا ہے۔ ’جب خواتین کھیل کی پریکٹس ہی نہیں کرتیں تو وہ قومی ٹیم میں کیسے جا سکتی ہیں؟‘
بین الاقوامی اولمپک کمیٹی (آئی او سی) جلاوطنی میں افغانستان کی قومی اولمپک کمیٹی (این او سی) کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ملک کی نمائندگی صنفی مساوات والی ٹیم کرے۔ کمیٹی کے مطابق اس سے دنیا کو ایک اہم پیغام جاتا ہے۔ اس موسم گرما میں پیرس میں ہونے والے کھیلوں میں کسی بھی طالبان عہدیدار کو شرکت کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
نہ ہی طالبان پیرس پہنچنے والے تین افغان مرد ایتھلیٹس کو ملک کی نمائندوں کے طور پر تسلیم کرتے ہیں حالانکہ ان میں سے صرف ایک جوڈو فائٹر محمد صمیم فیض نے افغانستان کے اندر کھیلوں کے لیے تربیت حاصل کی ہے۔ دیگر دو مرد، خواتین ایتھلیٹس کی طرح بیرون ملک رہتے ہیں۔
ہاشمی بہنیں اور ٹریک اینڈ فیلڈ ایتھلیٹ یوسفی سابق مغربی حمایت یافتہ انتظامیہ کے سیاہ، سرخ اور سبز پرچم تلے مقابلہ کریں گے، جسے اگست 2021 میں طالبان نے اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا۔ جب طالبان اقتدار میں آئے تو انہوں نے کہا کہ وہ ملک کے پرچم کو ایک سادہ سفید میں تبدیل کر رہے ہیں، جس پر سیاہ رنگ میں پہلا کلمہ درج ہے۔
ہاشمی بہنوں کا تعلق صوبہ فاریاب سے ہے، جہاں ان کا خاندان اب بھی موجود ہے، لیکن اب وہ اٹلی میں رہتی ہیں۔
انہوں نے 2022 میں سوئٹزرلینڈ کے شہر ایگل میں افغانستان کی ایشین چیمپیئن شپ کے ذریعے اولمپکس میں جگہ بنائی تھی، جہاں فریبا نے سائیکلنگ ریس میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور یلدوز دوسرے نمبر پر رہی تھیں۔ انہوں نے تیسری پوزیشن پر آنے والے کھلاڑی سے پانچ منٹ پہلے ریس مکمل کی تھی۔
اسی طرح کیمیا یوسفی خواتین کی 100 میٹر دوڑ میں حصہ لے رہی ہیں۔
انہوں نے کہا: ’میں ان خواتین کے چوری شدہ خوابوں اور امنگوں کی نمائندہ ہوں۔ وہ جن کے پاس آزاد انسان کی حیثیت سے فیصلے کرنے کا اختیار نہیں ہے، ان کے پاس پارک میں داخل ہونے کی بھی اجازت نہیں ہے۔‘
افغانستان کی نیشنل اولمپک کمیٹی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد یونس پوپلزئی، جو گذشتہ حکومت کے بچے ہوئے فرد ہیں اور زیادہ تر ملک سے باہر کام کرتے ہیں، نے کہا: ’ان میں غیر معمولی قابلیت ہے، صرف ان کی رفتار اور ریکارڈ رفتار سے سائیکل چلانے کے ٹیلنٹ کو دیکھیں۔ اس نے آئی او سی کو نوٹس لینے اور انہیں کھیلوں میں شامل کرنے پر مجبور کیا۔‘
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’اولمپکس میں حصہ لینے کے لیے، آپ میں بہت زیادہ مہارت ہونی چاہیے اور یہ خواتین اس سے آگے ہیں۔ انتہائی باصلاحیت۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جیسے جیسے گیمز قریب آ رہے ہیں، یلدوز ہاشمی پہلے سے کہیں زیادہ سخت ٹریننگ کر رہی ہیں۔ وہ دن میں چار گھنٹے پریکٹس کرتی ہیں، سخت غذائی روٹین پر عمل کرتی ہیں اور ضرورت کے مطابق نیند لینے کو یقینی بناتی ہیں۔ یہ سب اس لیے کہ وہ پیچھے اپنے وطن میں بہت سی خواتین کے خوابوں کا بوجھ محسوس کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا: ’اپنے ملک افغانستان کی نمائندگی کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ مجھے فخر محسوس ہوتا ہے اور میں اس سے آنے والی تمام مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں۔
’اپنے ملک کی دو کروڑ محروم خواتین کی نمائندگی کرنا میری شرکت کا سب سے اہم حصہ ہے کیونکہ میں دنیا کو ایک پیغام دے رہی ہوں کہ ہمیں مت بھولنا۔‘
طالبان کی جانب سے مغربی افواج کو انخلا پر مجبور کیے جانے کے بعد یہ بہنیں افغانستان سے آخری پروازوں میں سے ایک پر روانہ ہوئیں۔ اس پرواز کا انتظام اطالوی حکومت نے کیا تھا۔
یلدوز ہاشمی نے مزید کہا: ’میں 24 اگست 2022 تک کابل میں تھی اور میرا خاندان اب بھی افغانستان میں رہتا ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ ایک دن پناہ گزین بنیں گی۔
’میں اپنی جائے پیدائش کو بہت یاد کرتی ہوں اور ایک دن واپس جانا چاہتی ہوں۔‘
ہوسکتا ہے کابل کی موجودہ حکومت میں یہ آسان نہ ہو کیونکہ یہ بہنیں طالبان اور ان کے سفید پرچم کی مخالف ہیں۔
انہوں نے کہا: ’میں افغانستان کی نمائندگی کرتی ہوں نہ کہ طالبان کی۔ میں فخر کے ساتھ اپنے ملک کی دو کروڑ خواتین کی نمائندگی کر رہی ہوں۔
پیچھے ملک میں میری ساتھی خواتین کو کسی بھی دوسری عورت کی طرح ہر چیز تک رسائی حاصل ہونی چاہیے کیونکہ ہم بہتر کے مستحق ہیں۔ میں ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتی ہوں اور دعا کرتی ہوں کہ انہیں وہ تمام آزادیاں حاصل ہوں، جس کی ہر عورت حقدار ہے۔‘
© The Independent