’دوبارہ پیدا ہونے کا موقع ملا تو بھی ایرانی ہونے کا انتخاب کروں گی‘

مجھ سے پوچھا گیا کہ اگر امریکہ اور ایران کے درمیان معاہدہ ہو جائے یا اسرائیل جوہری پروگرام کو تباہ کرنے کا ہدف حاصل کر لے اور حکومت نہ گرے تو ایرانی عوام کا کیا بنے گا؟

مصنفہ نے 27 جولائی 2022 کو رضا شاہ پہلوی کی قبر پر جا کر انہوں نے امید ظاہر کی کہ وہ دن دیکھنے کا موقع ملے گا جس میں شاہ آریہ مہر (شاہ کا خطاب) کی معیت کو ایران کی سرزمین میں ان کے اصل مقبرے میں منتقل کیا جائے گا (کاملیا انتخابی فرد/انسٹاگرام)

ایک ٹی وی شو میں ہم ایک غیر ایرانی ماہر سے ایران کی صورت حال پر گفتگو کر رہے تھے۔ یہ تجزیہ اسرائیل اور ایران کے تنازع میں امریکہ کے داخل ہونے اور ایران پر حملہ کرنے کے امکانات کے بارے میں تھا۔

ہم اس بات کے امکانات کا جائزہ لے رہے تھے کہ جوہری تنصیبات بالخصوص فردو پر یہ حملہ کن حالات میں اور کیسے ہو سکتا ہے اور اس حملے کے ایران کے لیے کیا نتائج ہوں گے۔

شو کے مہمان نے اپنے تجزیے کا آغاز اس بیان سے کیا کہ جو بھی واقعات رونما ہوئے ہیں یا ہو رہے ہیں ان کے لیے پہلے سے منصوبہ بندی کی گئی تھی۔

یہ کہ ٹرمپ اور نتن یاہو بھی بخوبی جانتے ہیں کہ وہ آنے والے گھنٹوں اور دنوں میں کیا کریں گے اور کس منظر نامے پر عمل درآمد کیا جائے گا، اور یہ کہ یہ فیصلے آج یا گذشتہ ہفتے نہیں بلکہ بہت پہلے کیے گئے تھے۔ مہمان نے یہ کہتے ہوئے اپنا تبصرہ جاری رکھا کہ ان کے ردعمل (امریکہ اور اسرائیل) کی پہلے سے منصوبہ بندی کی گئی تھی۔

الشرق کے میزبان نے ان سے پوچھا کہ کیا انہوں نے اس حملے کے نتائج کے بارے میں سوچا ہے؟ اس سے مشرق وسطیٰ میں کیا بحران پیدا ہوگا اور ایران میں افراتفری کی صورت حال اور اس کے نتائج؟

پروگرام کے مہمان نے فوراً جواب دیا کہ اس بات کا یقین کرنے کی کیا وجہ ہے کہ ایران کو استحکام حاصل ہونا چاہیے یا یہ کہ استحکام یقینی طور پر آپریشن کی بنیادی شرط ہے؟ انہوں نے لیبیا یا شام کی صورت حال کی مثالیں دیں جو تبدیلی کے بعد برسوں تک غیر مستحکم رہی۔ ’اس میں کیا مسئلہ ہے کہ یہ اتنا ہی بکھرا اور غیر مستحکم رہتا ہے؟ اور ملک کو تقسیم کرنے والے مختلف نسلی گروہوں کا مسئلہ بھی ہے۔‘

 

میں سن رہی تھی اور میری آنکھوں کے سامنے ملک کا نقشہ پھیل گیا تھا۔ اس کا جغرافیہ، اس کا گرم پانی اور جنوب میں نیلا ساحل اور شمال میں کائی سے بھرا سبز پانی۔ کردستان اور بندر عباس اور آبادان اور اہواز سے تبریز اور بروجرد اور سمنان تک۔ زاہدان سے البرز اور خراسان سے میرے اچھے شہر تہران تک۔

میرے ذہن میں جو جواب بن رہا تھا وہ ایران عراق جنگ میں مارے جانے والوں کی تصویر سے ملتا جلتا تھا۔ یہ اسیروں کی تصویر سے ملتا جلتا تھا جنہیں عراق کے ساتھ جنگ ​​میں ہاتھ باندھ کر زندہ دفن کیا گیا تھا۔ یہ ان جوانوں اور عورتوں کی تصویر جیسی تھی جنہوں نے خرمشہر میں اپنے خالی ہاتھوں شہر اور ملک کا دفاع کیا تھا، یہ ندا آغا سلطان کی تصویر جیسی تھی، جس کا سینہ گولیوں سے چھلنی تھا۔

یہ تشدد کا نشانہ بننے والے نوجوان اور معصوم کارکن ستار بہشتی سے ملتا جلتا تھا۔ یہ مہاسا امینی سے ملتا جلتا تھا، جسے ناحق قتل کیا گیا۔ یہ متین منانی سے ملتا جلتا تھا، جو مہسا کی خاطر سڑک پر آیا تھا اور 24 سال کی عمر میں اس کی دونوں آنکھیں چھین لی گئی تھیں۔ اور میرا جواب ان آٹھ کروڑ ایرانیوں سے ملتا جلتا ہے جو آج اسلامی جمہوریہ کے ظالمانہ نظام کے اسیر ہیں اور اسرائیلی حملوں کا دفاع نہیں کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسرائیل نے اپنے شہریوں کے تحفظ اور ایرن کے جوہری پروگرام کو تباہ کرنے کے لیے حملہ کیا ہے۔ اسرائیل ایرانیوں کو ظالم حکومت اور حکمران مذہبی فرقے سے آزاد کرانے کے لیے میدان جنگ میں نہیں آیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم اور اس ملک کے دیگر حکام نے گذشتہ ہفتے بارہا کہا ہے کہ انہوں نے حکومت کی تبدیلی کے لیے ایران پر حملہ نہیں کیا ہے، حالانکہ یہ ممکن ہے کہ ان حملوں اور آئی آر جی سی اور فوج کے کمانڈروں کی موت کے نتیجے میں حکومت گر جائے۔

میں نے اپنے جواب کا آغاز یہ کہہ کر کیا کہ میں پروگرام کے مہمان کے بیانات سے مکمل اتفاق کرتی ہوں، سوائے ایک اہم نکتے کے: وہ یہ کہ انہوں نے ایرانیوں میں قوم پرستی کی مضبوط قوت کو نظر انداز کیا اور یہ بھی کہ ایران ایک قدیم تاریخ اور قدیم تہذیب کا حامل ملک ہے۔

تاریخی واقعات کے دوران ملک کے ڈھانچے پر لگنے والے زخموں کو چھوڑ کر، ایرانی پچھلے ہزار سال کے دوران غیر ملکی قبضے اور جارحیت پر قابو پانے میں کامیاب رہے ہیں۔

ملک میں آخری بڑا واقعہ 1979 میں شاہ مرحوم کی ملک سے رخصتی اور انقلاب کے ساتھ پیش آیا۔

اور اب اس بڑے واقعے کے 46 سال بعد ایران ایک بار پھر حالت جنگ میں ہے اور دوسری طرف حکومت کی تبدیلی یا کسی بڑے واقعے کا امکان ہے۔

ایرانیوں کی قوم پرستی، جو گذشتہ دو سالوں میں احتجاجی اور غیر احتجاجی اجتماعات میں واضح اور نمایاں طور پر جلوہ گر ہوئی ہے، وہی عبرت انگیز قوت ہے جو ایرانیوں کو آنے والے خطرات کے خلاف متحد رکھے گی۔

مجھ سے پوچھا گیا کہ اگر امریکہ اور ایران کے درمیان معاہدہ ہو جائے یا اسرائیل جوہری پروگرام کو تباہ کرنے کا ہدف حاصل کر لے اور حکومت نہ گرے تو ایرانی عوام کا کیا بنے گا؟

میں نے اطمینان سے جواب دیا کہ وہ کسی اور موقع کا انتظار کریں گے۔ وہ برسوں سے اس حکومت کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور آخر کار انہیں یہ موقع ملے گا۔ اور جہاں تک نوروز کا تعلق ہے، جو گزر گیا، ایرانیوں نے اپنے سب سے خوبصورت قوم پرست مظاہر دکھائے۔ اٹوٹ طاقت اور ہم آہنگی کا مظاہرہ۔ اس حوالے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایرانی قوم ہوشیار اور بیدار ہے اور تاریخی موڑ پر ملک و قوم کا دفاع کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

اور میرے لیے، میں نے ان 46 سالوں میں جتنے بھی اتار چڑھاؤ کا سامنا کیا، اگر مجھے دوبارہ پیدا ہونے کا موقع ملا تو میں فخر کے ساتھ ایک بار پھر ایرانی ہونے کا انتخاب کروں گی اور اس خدائی سرزمین میں پیدا ہونے کا انتخاب کروں گی۔

ایران تیری شان ابدی رہے۔

نوٹ: کاملیا انتخابی فرد انڈپینڈنٹ فارسی کی ایڈیٹر ان چیف ہیں۔

یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین