ہاتھوں میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا جھنڈا لہراتے ہوئے جلسے میں شریک کچھ کارکنان آپس میں گفتگو کر رہے تھے اور اپنی قیادت پر تنقید کر رہے تھے۔
ایک نے بتایا، ’ہم اس امید سے تھے کہ کوئی بڑا اعلان ہو گا لیکن یہ لوگ (قیادت) نہیں کر سکتے۔ یہ ڈرتے ہیں اور کچھ نہیں کر سکتے۔ اس جلسہ گاہ میں موجود لوگ جواب دینے کے لیے کافی ہیں لیکن قیادت میں کوئی تگڑا بندہ نہیں ہے۔‘
یہ پشاور کے حیات آباد سپورٹس کمپلیکس میں اتوار کو ہونے والے پی ٹی آئی جلسے میں شریک چند شرکا کے نجی خیالات تھے جہاں کارکنان پاکستان فوج کے ترجمان لفٹنینٹ جنرل احمد شریف کے پریس کانفرنس کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے کسی بڑے اعلان کے منتظر تھے۔
پاکستان فوج کے تعلقات عامہ کے ترجمان لیفٹنٹ احمد شریف چودھری نے نام لیے بغیر بتایا تھا کہ عمران خان قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔
کارکنان کے علاوہ پاکستانی میڈیا پر بیٹھے تجزیہ کاروں کا بھی یہی خیال تھا کہ شاید جلسے میں پریس کانفرنس کا سخت ردِعمل سامنے آئے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا محمد سہیل آفریدی کی جانب سے نہایت احتیاط اور نرم لہجے میں خطاب کیا گیا۔ انہوں نے خطاب میں یہ بھی بتایا کہ ان کے خلاف بیانیہ بنا کر انہیں تشدد پر اکسانے کی کوشش ہو رہی ہے لیکن ایسا پہلے ہوا ہے اور نہ کبھی ہو گا۔ انہوں نے بتایا کہ ’میری تربیت ایسی نہیں ہوئی ہے کہ کسی کو برا جواب دے دوں۔‘
جلسے میں سخت موقف نہ آنے کی وجہ؟
کارکنان کی جانب سے سخت موقف کی امید کے باوجود تجزیہ کاروں کے مطابق سخت موقف نہ اپنانے کی وجہ پی ٹی آئی کی جانب سے بات چیت کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔
لحاظ علی پشاور میں مقیم صحافی اور پی ٹی آئی کی سیاست کو قریب سے دیکھتے ہے اور ان کے مطابق پی ٹی آئی کو سوشل میڈیا کی ’قیادت‘ نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی کی ایک سوشل میڈیا پر بیٹھی قیادت ہے جو کسی وقت پی ٹی آئی کی طاقت تھی لیکن اب کمزوری بن گئی ہے اور پارٹی قیادت کے لیے ایک مسئلہ بن گئی ہے۔
لحاظ علی نے بتایا، ’سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی اکاؤنٹس کی جانب سے سخت گیر موقف سامنے آتا ہے اور اب بھی آ رہا ہے لیکن پارٹی قیادت معاملات کو بہتر بنانے کی کوشش میں ہے۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے اپنے پریس کانفرنس میں بھی پی ٹی آئی کے بعض اکاؤنٹس کی جانب سے ٹوئٹس دکھائے گئے جس میں ان کے مطابق بعض ٹوئٹس ایسے تھے جو بقول ان کے ملک کی سلامتی کے لیے خطرے کی مانند تھے۔
لحاظ علی نے بتایا، ’میرے اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی قیادت سوشل میڈیا پر سخت موقف سے بہت تنگ ہے کیونکہ پارٹی قیادت عمران خان کی رہائی اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات بہتر کرنے کے خواہاں ہے اور یہ بات گذشتہ دن جلسے میں نرم لہجے سے واضح ہوگئی ہے۔‘
اس سے پہلے اسی طرح کے نرم رویے کے وجہ سے علی امین گنڈاپور کے خلاف پارٹی ورکرز کی جانب سے تنقید سامنے آتی رہی تھی جبکہ بعض مواقع پر مظاہروں سے علی امین کی واپسی پر پارٹی قیادت نے بھی تنقید کی تھی۔
تاہم سہیل آفریدی کے بعد ورکرز کی یہ امیدیں تھیں کہ اب جارحانہ سیاست ہوگی، تاہم پشاور میں مقیم صحافی و تجزیہ کار محمود جان بابر کے مطابق یہ سہیل آفریدی کے لیے اب ایک بڑا چیلنج ہے۔
محمود نے بتایا، ’سہیل افریدی سے ورکرز یہی امید رکھتے ہیں کہ وہ سخت لہجہ اور سخت گیر سیاست کریں، لیکن گذشتہ جلسے میں سہیل نے ایسا نہیں کیا۔‘
اسی طرح محمود جان بابر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سہیل افریدی کی جانب سے کسی مظاہرے یا دھرنے کے اعلان نہ کرنے کے پیچھے یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ وفاقی حکومت سمیت اسٹیبلشمنٹ سے کسی نرمی کی امید نہیں ہے۔
محمود جان بابر نے بتایا، ’نو مئی اور 26 نومبر کو جو کچھ ہوا تو پی ٹی آئی کو ریاست کا موڈ معلوم ہے اور اسی وجہ سے اب نہایت احتیاط سے قدم لیا جا رہا ہے لیکن دوسری جانب سے پارٹی ورکرز اور سوشل میڈیا کے حامیوں سے سخت تنقید کا سامنا ہے اور ایگریسیو سیاست کرنے کا کہا جا رہا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ ان کے ورکرز اور قیادت کو حارحانہ بننے پر مجبور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن ان کے مطابق پی ٹی آئی ایسا نہیں کرے گی۔
پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات اکرام کھٹانہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت ہے جس کی قیادت کسی کی خواہش پر ایسی کوئی بات نہیں کرے گی بلکہ ہمیں دستوری اور آئینی حق کو استعمال کرنے کا حق ہے۔
اکرام کھٹانہ نے بتایا، ’وزیر اعلٰی پی ٹی آئی کے کارکن ہیں اور عمران خان کی جانب سے ان کا انتخاب بالکل صحیح ثابت ہویا ہے اور گذشتہ روز پریس کانفرنس کا جواب ایسا نہیں دیا گیا جس کی بعض لوگوں کی خواہش تھی۔‘
اکرام کھٹانہ نے بتایا کہ جن کی خواہش ہے کہ وہ تشدد کا راستہ اختیار کریں، تو یہ ان لوگوں کی بھول ہے اور ’ہم ہمیشہ آئین اور قانون کے اندر رہ کر بات کریں اور عمران خان کی رہائی کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے۔‘