ہم بھیک نہیں بلکہ اپنا حق چاہتے ہیں: سہیل آفریدی 

خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر میں بلائے گئے جرگے سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعلیٰ سہیل آفریدی نے کہا کہ قبائلی عوام نے ملک کے لیے بے شمار قربانیاں دیں، مگر ریاست نے وعدے پورے نہیں کیے۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا 25 اکتوبر 2025 کو ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ میں جرگے سے خطاب کرتے ہوئے (پی ٹی آئی/سکرین گریب)

خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ میں بلائے گئے جرگے سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے کہا کہ ’ہم ریاست سے بھیک نہیں بلکہ اپنا حق مانگتے‘ ہیں۔

جرگے میں مختلف قبائلی اضلاع کے مشران کو مدعو کیا گیا تھا۔ یہ جرگہ جلسے کا منظر پیش کر رہا تھا، تاہم اس میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے جھنڈے موجود نہیں تھے بلکہ سفید رنگ کے جھنڈے تھے جن پر ’امن‘ کے الفاظ درج تھے۔

وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’پاکستان کی سرحدیں جو قبائلی اضلاع سے متصل ہیں، ان کی ہمیشہ حفاظت قبائلی عوام نے کی ہے۔ کسی کی جرات نہیں تھی کہ ان علاقوں میں داخل ہو، لیکن بعد میں بند کمروں میں بیٹھے لوگوں کے فیصلوں کے باعث ہم پرائی جنگ میں کود پڑے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں بتایا گیا کہ پاکستان کے لیے قربانی کی ضرورت ہے اور قربانی کا بکرا قبائلیوں کو بنایا گیا۔ ہم نے قربانیاں بھی دیں اور فوجی آپریشنز کے دوران اپنے گھر بار چھوڑ دیے۔‘

سہیل آفریدی نے کہا کہ ’ہمارے گھر بار اور حجرے اجڑ گئے، ہماری باپردہ خواتین ننگے پاؤں گلیوں میں پھِر رہی تھیں۔ اور ایک کے بعد ایک آپریشن جاری تھا۔ اس کے بعد ڈرون حملے شروع ہو گئے، لیکن ہم نے پھر بھی قربانیاں دیں۔‘

انہوں نے الزام لگایا کہ ’ریاست نے ہماری قربانیوں کے باوجود جو وعدے کیے، وہ پورے نہیں کیے گئے، بلکہ 2022 میں دوبارہ ان لوگوں (عسکریت پسندوں) کو یہاں لایا گیا۔‘

سہیل آفریدی نے کہا کہ ’اب ایک بار پھر فوجی آپریشن کی تیاری کی جا رہی ہے اور ہم سے دوبارہ قربانی مانگی جا رہی ہے۔ پہلے جو قربانیاں دی گئیں، ان کا حساب کون دے گا؟‘

اگرچہ وفاقی حکومت کی جانب سے کسی بڑے آپریشن کا اعلان اب تک نہیں کیا گیا ہے، تاہم سکیورٹی اداروں کی جانب سے ٹارگٹڈ آپریشن مختلف قبائلی اضلاع میں جاری ہیں۔

سکیورٹی اداروں کے مطابق عسکریت پسندوں کے خلاف یہ کارروائیاں اسی طرح جاری رہیں گی اور کسی کو بھی ان کے خلاف بیانیہ بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

سہیل آفریدی نے کہا کہ ’یہ جرگہ چند مطالبات کے لیے بلایا گیا ہے اور اس میں سب کو میرا ساتھ دینا ہوگا کیونکہ ہم نے قربانیاں دی ہیں، ہماری پولیس نے قربانیاں دی ہیں اور اسی کے نتیجے میں یہاں امن قائم ہوا تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ یہاں کوئی نیا فوجی آپریشن نہ کیا جائے۔ ہم ریاست کے ساتھ مل کر امن قائم رکھنے میں تعاون کریں گے اور سکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے لیکن بے گناہوں کے جانی نقصان کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔‘

انہوں نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ قبائلی اضلاع کے مستقبل سے متعلق فیصلے صوبائی حکومت، مقامی مشران، عمائدین اور عوام کے مشورے سے کیے جائیں، بصورت دیگر کوئی منصوبہ قابلِ قبول نہیں ہوگا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سہیل آفریدی نے کہا کہ قبائلی اضلاع کے انضمام کے دوران کیے گئے وعدے اور 500 ارب روپے کے فنڈز جلد از جلد جاری کیے جائیں۔ ان کا تیسرا مطالبہ تھا کہ نیشنل فنانس کمیشن کا اجلاس جلد بلایا جائے اور خیبر پختونخوا کو اس کا جائز حصہ دیا جائے، جب کہ بجلی کے خالص منافع کی مد میں واجب الادا 2200 ارب روپے صوبے کو واپس کیے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ ’میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ جب تک میں زندہ ہوں، آپ کے حقوق کے لیے لڑتا رہوں گا اور مرتے دم تک یہ وعدہ نبھاتا رہوں گا۔‘

سہیل آفریدی نے مزید کہا کہ اس طرح کے جرگے تمام قبائلی اضلاع میں منعقد کیے جائیں گے، جس کے بعد لویہ امن جرگہ تشکیل دیا جائے گا۔ ہم اپنے مطالبات پہلے بات چیت سے اور پھر قبائلی انداز میں منوائیں گے۔

جرگے میں پاکستان تحریکِ انصاف کے ساتھ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما اور کارکن بھی شریک تھے۔ ج

معیت علمائے اسلام کے کارکن محمد ساجد نے کہا کہ پہلی مرتبہ قبائلی ضلع سے وزیرِاعلیٰ منتخب ہوئے ہیں، امید ہے کہ وہ خطے میں پائیدار امن قائم کرنے میں کردار ادا کریں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی