دریائے کابل پر افغان طالبان کے ڈیم کی تعمیر کے اعلان پر پاکستان کا محتاط ردعمل

پاکستان نے افغانستان کی جانب سے دریائے کنڑ (جسے دریائے کابل بھی کہا جاتا ہے) پر ڈیم کی تعمیر کے اعلان پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ سرحد پار دریا بین الاقوامی قانون کے تحت آتے ہیں اور اسلام آباد اس معاملے کو ’مناسب طریقے‘ سے دیکھے گا۔

14 ستمبر 2025 کو افغان صوبے کنڑ کے ایک فضائی منظر میں دریائے کنڑ کو پہاڑی کے دامن سے بہتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے (وکیل کوہسار / اے ایف پی)

پاکستان نے افغانستان کی جانب سے دریائے کابل پر ڈیم کی تعمیر کے اعلان پر جمعے کو اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ سرحد پار دریا بین الاقوامی قانون کے تحت آتے ہیں اور اسلام آباد اس معاملے کو ’مناسب طریقے‘ سے دیکھے گا۔ 

دریائے کابل، جسے دریائے چترال اور کنڑ بھی کہا جاتا ہے، دونوں ممالک کے درمیان ہندوکش پہاڑی سلسلے سے شروع ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ چترال جبکہ افغانستان میں وردگ اور پغمان سے آتا ہے۔ تقریبا سات سو کلومیٹر طویل یہ دریا مشرقی افغانستان سے جنوب کی جانب سفر کرتا ہواکابل اور صوبہ ننگرہار سے ہوتا ہوا، پھر جلال آباد کے قریب خیبر پاس سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ آگے چل کر یہ وادی پشاور، چارسدہ اور نوشہرہ سے گزرتا ہوا کنڈ کے مقام پر دریائے سندھ میں داخل ہو جاتا ہے۔

پاکستان کو افغانستان کی جانب سے دریائے کابل پر ڈیم بنانے پر کافی عرصے سے تحفظات ہیں۔ اسلام آباد کابل کو باور کروا چکا ہے کہ جس ملک سے دریا کا آغاز ہو اس کے سمجھوتے یا رضا مندی کے بغیر پانی نہیں روکا جا سکتا، تاہم افغانستان کا موقف ہے کہ دریائے کنڑ پر ڈیم بنانے سے پانی کے بہاؤ میں کمی واقع نہیں ہو گی اور پاکستان کو اس حوالے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

نومبر 2023 میں افغان وزیر ملا عبدالغنی برادر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان کا یہ فیصلہ ہے کہ دریائے کنڑ کا بہاؤ روکا جائے گا، جس کے جواب میں بلوچستان کے اس وقت کے وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے کہا تھا کہ دریائے کنڑ پر ڈیم بنانے کا قدم یکطرفہ ہو گا اور اگر پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر یہ قدم اٹھایا گیا تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے جیسے کہ تعلقات مزید کشیدہ ہوں گے اور ممکنہ تصادم۔

افغان حکومت کی ترجمان ویب سائٹ ’الامارہ‘ پر جمعے کو شائع ہونے والی رپورٹ میں حکام کے حوالے سے بتایا گیا کہ افغانستان نے ’ملکی وسائل کے بہتر استعمال‘ اور ’توانائی کے شعبے میں خودکفالت‘ کے لیے دریائے کنڑ پر ڈیم کی تعمیر کا اعلان کیا ہے۔

اس اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر اس پر گرما گرم بحث شروع ہوگئی۔ ماہرین کے مطابق افغان طالبان کو اس بڑے منصوبے کے لیے بڑی رقم اور وقت درکار ہوگا۔ عموما اس قسم کے ڈیم 10 سے بیس سالوں میں مکمل ہوتے ہیں۔ لہذا اس وقت اس کے اعلان پر تعیجب کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغان حکومت کے اس اعلان پر پاکستانی دفتر خارجہ نے جمعے کو کہا کہ اس معاملے کو مناسب طور پر آگے بڑھایا جائے گا۔

ترجمان وزارت خارجہ  ناصر اندرابی نے ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا: ’ہم اس بارے میں تفصیلات اکٹھی کر رہے ہیں، تاہم عمومی طور پر سرحد پار دریا بین الاقوامی قانون کے تحت آتے ہیں۔ اس معاملے میں پاکستان بالائی اور زیریں دونوں سطحوں پر حصہ دار ہے، لہٰذا ہم اس معاملے کو مناسب طور پر آگے بڑھائیں گے۔‘

افغان طالبان کی جانب سے یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا، جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ سرحدی کشیدگی کے بعد 19 اکتوبر کو دوحہ میں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا اور اسی سلسلے کی دوسری کڑی کے طور پر ہفتے کو دونوں ملکوں کا وفد ترکی کے شہر استنبول میں ملاقات کرے گا۔

’الامارہ‘ کی رپورٹ میں وزارت پانی و توانائی کے حکام کے حوالے سے بتایا گیا کہ طالبان حکومت کے امیر ملا ہبت اللہ اخونزادہ نے ہدایت دی ہے کہ ’دریائے کنڑ پر ڈیم کی تعمیر کا کام فوری طور پر شروع کیا جائے اور اس منصوبے کے لیے غیر ملکی کمپنیوں کا انتظار کیے بغیر ملکی کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کے ساتھ معاہدے کیے جائیں۔‘

رپورٹ میں افغان وزیر برائے پانی و توانائی مولوی عبداللطیف منصور کے حوالے سے رپورٹ کیا گیا کہ دریائے کابل پر ایک اور ڈیم بنانے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے اور دونوں منصوبوں کے لیے افغان نجی شعبے کے لیے ایک جامع سرمایہ کاری منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق مولوی منصور کا کہنا تھا کہ ’اگر دریائے کنڑ پر ساگی اور شال کے دو ڈیم تعمیر کیے جائیں تو ان سے 1200 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے، جو نہ صرف ملکی ضروریات پوری کرے گی بلکہ پاکستان کے قریبی علاقوں باجوڑ، چترال اور دیگر سرحدی علاقوں کو بھی سستی بجلی برآمد کی جا سکتی ہے۔‘

انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ’دریائے کنڑ میں پانی کی زیادتی کے باعث پاکستان کو اکثر نقصان اٹھانا پڑتا ہے، تاہم ڈیموں کی تعمیر سے پانی کا مؤثر انتظام ممکن ہوگا، جس سے دونوں ممالک کو فائدہ پہنچے گا۔‘

پاکستان میں کچھ عرصے قبل یہ تجویز سامنے آئی تھی کہ دریائے کنڑ کا رخ موڑ کر دریائے پنجکورا کی جانب موڑ دیا جائے، لیکن آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے افغانستان میں ہائیڈروالیکٹرک اور زرعی پراجیکٹس بری طرح متاثر ہوں گے، زمینیں بنجر ہو جائیں گی اور ماحولیاتی زندگی بری طرح متاثر ہو گی جس کے باعث بڑے پیمانے پر نقل مکانیاں ہوں گی، لیکن ساتھ ساتھ ایسا کرنے سے پاکستان پر بھی اثرات مرتب ہوں گے، لہذا دریا کا رخ موڑنا آپشن نہیں ہے۔

’الامارہ‘ کی رپورٹ میں ماہرین معیشت اور انجینیئرنگ کے حوالے سے بتایا گیا کہ ’دریائے کنڑ کے پانی کا سالانہ حجم تقریباً 15 ہزار ملین مکعب میٹر ہے، مگر اس میں سے 11 ہزار ملین مکعب میٹر پانی افغانستان کو کوئی فائدہ پہنچائے بغیر بہہ جاتا ہے۔۔۔اگر اس پانی کو ڈیموں کے ذریعے ذخیرہ کر کے استعمال میں لایا جائے تو افغانستان نہ صرف توانائی میں خود کفیل ہو سکتا ہے بلکہ زرعی پیداوار، صنعتی ترقی اور برآمدات کے ذریعے اقتصادی خود انحصاری کی راہ پر بھی گامزن ہو جائے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا