آبی تنازعات جو جنگوں میں بدل سکتے ہیں

جہاں ایک طرف انڈیا اور پاکستان کا آبی وسائل پر تنازع چل رہا ہے وہیں پر اس وقت دنیا میں تین اور بڑے پانی کے تنازع چل رہے ہیں جو آنے والے وقتوں میں جنگ کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔

31 اگست 2022 کو لی گئی اس فضائی تصویر میں صوبہ سندھ کے شہر سکھر میں شدید بارشوں کے بعد سکھر بیراج کے ساتھ دریائے سندھ میں سیلابی پانی کو دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی)

پاکستان اور انڈیا ایک بار پھر آمنے سامنے اور جنگی جنون نے دونوں ممالک کو لپیٹ میں لے لیا تھا۔ پہلگام میں سیاحوں پر حملوں کے بعد انڈیا نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کر دیا تھا۔

پاکستان نے جواب میں انڈیا کے اس قدم کو ایکٹ آف وار قرار دیا۔ دہلی میں سرکار اور میڈیا نے طبلِ جنگ بجانا شروع کر دیا۔ اس جنگی جنون میں ایک انڈین شاعر نے ایسے موقع کے لیے لکھا تھا:

‎ سرحد پر بہت تناؤ ہے کیا؟

‎کچھ پتا تو کرو چناؤ ہے کیا؟

دونوں ممالک کے درمیان آرمڈ کونفلیکٹ کا آغاز ہوا اور بین الاقوامی ماہرین نے خدشات کا اظہار کیا کہ آبی وسائل پر ہونے والا یہ تنازع کہیں جنگ کی صورت نہ اختیار کر لے۔ تاہم امریکی ثالثی کے باعث دونوں ممالک میں وقتی طور پر سیز فائر ہو گئی ہے۔

عالمی آبی تنازعات اصل میں جیو پولیٹکس یعنی جغرافیائی سیاست کے مرحون منت ہوتے ہیں۔ نہ اپ ریور اور نہ ہی ڈاؤن ریور ریاستیں اس کے بغیر رہ سکتی ہیں کیونکہ پانی ڈیویلپمنٹ اور معاشی ترقی کے لیے بہت اہم ہے۔ لیکن ایک ریاست کو دوسری ریاست پر برتری حاصل ہوتی اور وہ ہے اپ ریور ریاست۔

اس ریاست کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ پانی اپنی ترقی کے لیے استعمال کرے اور بچا ہوا پانی ڈاؤن ریور ریاست کو دے لیکن ایسا کرنے سے دوسرا ملک ترقی سے محروم رہ جائے گا اور آج کل کے زمانے میں کیونکہ موسمی تبدیلی اور آبی وسائل کی کمی میں ایسا کرنا ڈاؤن ریور ریاست کو ختم کر دینے کے مترادف ہے۔

جہاں ایک طرف انڈیا اور پاکستان کا آبی وسائل پر تنازع چل رہا ہے وہیں پر اس وقت دنیا میں تین اور بڑے پانی کے تنازع چل رہے ہیں جو آنے والے وقتوں میں جنگ کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔

چین اور انڈیا: براہماپترا دریا

براہماپترا دریا 2900 کلومیٹر لمبا ہے جو تبت سے شروع ہوتا ہے اور انڈیا کی اروناچل ریاست سے گزرتا ہوا جمنا میں ملتا ہے اور بنگلہ دیش میں خلیج بنگال میں جاتا ہے۔

یہ دریا چین، انڈیا اور بنگلہ دیش تینوں ممالک کے لیے بہت اہم ہے۔ چین کے لیے اہم ہے کیونکہ اس سے پن بجلی بنتی ہے اور انڈیا اور بنگلہ دیش کے لیے اس کی اہمیت اس لیے ہے کہ زراعت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

لیکن دنیا کے دیگر دریاؤں کی طرح براہماپترا دریا میں بھی پانی محدود ہے اور اپ ریور اور ڈاؤن ریور ممالک کی پانی کی مانگ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

انڈیا کے لیے اس دریا کا پانی آسام میں زرعی صنعت کے لیے بہت ضروری ہے جہاں دو کروڑ 70 لاکھ افراد کی روزی اس پر منحصر ہے۔ دوسری جانب چین نے اس دریا پر پن بجلی بنانے کے لیے کئی پراجیکٹس تعمیر کیے ہیں۔

ان پراجیکٹس میں یمدروک ہائیڈروپاور سٹیشن، زیکونگ ہائیڈروپاور سٹیشن، پنگڈو ہائیڈروپاور سٹیشن، جیاکا ہائیڈروپاور سٹیشن، زنگمو ہائیڈروپاور سٹیشن، ماچا سنگپو ڈیم (کام جاری ہے) اور سپر ڈیم جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا ہائیڈروپاور سٹیشن ہو گا۔

چین کے ان پراجیکٹس کی وجہ سے ڈاؤن ریور بہاؤ میں کمی چین اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کا باعث ہے۔

براہماپترا دریا کے مشترکہ انتظامات کے حوالے سے کچھ اقدام اٹھائے گئے ہیں جن میں سے ایک ہے کہ 2002 کے معاہدے کے تحت بیجنگ چین میں پانی کے بہاؤ کا ڈیٹا انڈیا کو مہیا کرے گا۔ لیکن کتنی جلدی اس قسم کےمعاہدے ختم ہو سکتے ہیں اس کی ایک مثال تو سندھ طاس معاہدے کی صورت میں دیکھ ہی لیا ہے ہم نے لیکن اس کی دوسری مثال ہے کہ بیجنگ نے 2002 کے معاہدے کو اس وقت معطل کر دیا جب 2017 میں انڈین اور چینی فوجوں کا ڈوکلم پلیچو پر تصادم ہوا۔

اگرچہ ماہرین کا کہنا ہے کہ براہماپترا دریا کو اپ ریور کو روکنے کی کوشش کرنا ممکن نہیں ہے لیکن پھر بھی دریا کا پانی اس خطے کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان کشیدگی کی وجہ ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کیسے ان دونوں ممالک میں پانی کی سٹریٹیجک اہمیت کو نظر میں رکھا جا رہا ہے۔

ایتھوپیا اور مصر: گرینڈ ایتھوپین رینائسنس ڈیم اور دریائے نیل

سنہ 2011 میں ایتھوپیا نے گرینڈ ایتھوپین رینائسنس ڈیم کی چار ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر کا اعلان کیا۔

یہ ڈیم دریائے نیل پر سوڈان کی سرحد کے ساتھ ہو گا اور اس پر پانچ ہزار میگا واٹ کا پن بجلی پراجیکٹ بھی ہو گا۔ اس ڈیم کا مقصد ایتھوپیا میں پن بجلی پیدا کرنا جو نہ صرف ایتھوپیا کو بجلی فرام کرے بلکہ پورے ہارن آف افریقہ کو بجلی فراہم کرے۔

لیکن خدشہ ہے کہ اس ڈیم سے ایک مسئلہ حل ہو گا تو دوسرا مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک طرف تو ایتھوپیا اپنی توانائی کی قلت کو پورا کرے گا لیکن دوسری جانب وہ اپنی آبی کمی کو مزید بڑھائے گا کیونکہ دریائے نیل کے بہاؤ کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ اس کے علاوہ اس پراجیکٹ کے حوالے سے دریا کے بہاؤ کے نیچے کی جانب مصر کو اس ڈیم پر کافی تحفظات ہیں۔

مصر کا کہنا ہے کہ دریائے نیل نہ صرف زرعی معیشت کے لیے بہت اہم ہے بلکہ عوام کو پانی فراہم کرنے کا واحد ذریعہ بھی ہے۔ اسی لیے مصر اس ڈیم کے شروع ہی سے خلاف ہے۔

مصر کا کہنا ہے کہ 1929 اور 1959 کے آبی معاہدوں کے مطابق مصر کو دریائے نیل کے دو تہائی پانی کا حصہ ملنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دریا پر بننے والے کسی بھی پراجیکٹ کی تعمیر کے حوالے سے مصر کو ویٹو کا حق حاصل ہے۔

تاہم ایتھوپیا نے گرینڈ ایتھوپین رینائسنس ڈیم کی تعمیر اس لیے شروع کی کہ یہ دونوں آبی معاہدے برطانیہ کے ساتھ طے پائے تھے اور برطانیہ نے اس وقت کی اپنی کالونیوں کی طرف سے یہ معاہدہ کیا تھا اور اس معاہدے پر ایتھوپیا نے دستخط نہیں کیے تھے۔

اس کے نتیجے میں اپ ریور ممالک ڈاؤن ریور ممالک یعنی مصر اور سوڈان کے خلاف متحد ہو گئے ہیں جو اس پانی پر قدیم حقوق پر نظر ثانی کرنے سے انکار کرتے ہیں جبکہ خطے میں معاشی طاقت کے ڈائنامکس تبدیل ہو چکے ہیں۔

گرینڈ ایتھوپین رینائسنس ڈیم کو 2020 میں بھرنے کا آغاز کیا گیا تھا اور اس سے پہلی بار بجلی 2022 میں بنائی گئی اور 2024 میں اس سے 1550 میگا واٹ بجلی پیدا ہوئی۔

لیکن اس کے باوجود اس ڈیم سے منسلک جغرافیائی سیاست اب بھی موجود ہے اور یہ ڈیم دنیا کا سب سے خطرناک آبی تنازع ہے جس کے شکنجے میں سوڈان کی جنگ بھی آئی جہاں مصر چاہتا ہے کہ ان کا آدمی حکومت میں آئے جو مصر کے ساتھ مل کر اس ڈیم کی مخالفت کرے۔

ترکی اور عراق: الیسو ڈیم اور دریائے دجلہ

ترکی میں اردوغان حکومت نے ملک کے جنوب مشرقی اناطولیہ پراجیکٹ کے تحت دریائے دجلہ پر شام کی سرحد کے قریب 2019 میں الیسو ڈیم کی تعمیر کا آغاز کیا۔

یہ پراجیکٹ ان پراجیکٹس کا حصہ ہے جن کے تحت دجلہ اور فرات پر پن بجلی بنانا ہے۔ ایلیسو ڈیم سے 1200 میگا واٹ پن بجلی تیار کی جائے گی جو کہ ترکی کی بجلی کی طلب کا دو فیصد ہے۔

جنوب مشرقی اناطولیہ پراجیکٹ کے تحت دجلہ-فرات بیسن پر 22 ڈیم اور 19 پن بجلی پراجیکٹ بننے ہیں اور اسی لیے یہ پراجیکٹ ایک بین الاقوامی آبی تنازع کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ اور ترکی کے اس پراجیکٹ میں نقصان عراق کا ہو رہا ہے اور اس سے تھوڑا کم شام کا۔

تاریخی طور پر عراق کو ان دریاؤں کا بہت زیادہ حصہ ملتا آ رہا ہے۔ لیکن گذشتہ ایک دہائی سے ان دریاؤں میں پانی کم ہوتا جا رہا ہے اور ایسا اس وقت سے ہو رہا ہے جب الیسو ڈیم بنا بھی نہیں تھا۔

در حقیقت جنوبی عراق اور شام میں 2014 میں اتنی خشک سالی ہوئی کہ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سماجی معاشی شورش کے باعث شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کو جگہ ملی۔ 

دجلہ – فرات بیسن پر الیسو ڈیم سمیت دیگر پراجیکٹس ترکی شام اور عراق کے درمیان کشیدگی کا باعث ہیں۔

حال ہی میں عراقی وزیر اعظم نے الیسو ڈیم کو عراق میں خشک سالی کا باعث قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق موسمی تبدیلی سے متاثر ہونے والے ممالک میں عراق پانچویں نمبر پر ہے  اور ماہرین کے مطابق دریائے فرات کا 2040 تک مکمل طور پر خشک ہونے کا خدشہ ہے۔  

یہ آبی تنازعات موسمی تبدیلی کے باعث مزید شدت پکڑیں گے اور جن ممالک کے درمیان پانی کے تنازعات ہیں بشمول پاکستان  تمام ممالک موسمی تبدیلی سے شدید متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔

مل بیٹھ کر بات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ آنے والے وقت میں کوئی ملک بھی اکیلا کچھ نہیں کر پائے گا جب تک سب مل کر موسمی تبدیلی کے حل یا کم از کم اس کے اثرات کم کرنے کے حوالے سے کام نہیں کرتے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ