طالبان نے ایران کے ساتھ آبی مسئلے پر ایک جنگ سوشل میڈیا پر بھی لڑی

خطے کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین سمجھتے ہیں کہ افغانستان کی علاقائی سالمیت اور آبی وسائل کے دفاع کا دعویٰ اور میڈیا اور سوشل نیٹ ورکس کا استعمال کرتے ہوئے طالبان اپنے حامیوں کی تعداد بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

19 اکتوبر 2021 کو لی گئی اس تصویر میں ایک طالبان جنگجو ایران اور افغانستان کے درمیان اسلام قلعہ سرحد پر پہرہ دے رہا ہے (اے ایف پی)

ایران کی سرحد پر واقع افغان صوبے نمروز میں گذشتہ ہفتے کے اختتام پر پانی کے معاملے پر افغان طالبان اور ایرانی فورسز میں ہونے والی جھڑپوں میں دونوں طرف سے جانی نقصان کی اطلاعات ہیں، تاہم خطے کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین سمجھتے ہیں کہ طالبان نے اس واقعے کو اپنی ’مقبولیت بڑھانے‘ کے لیے استعمال کیا ہے۔

گوریلا جنگ کا تجربہ رکھنے والے افغان طالبان نے واقعے کی ویڈیوز اور تصاویر کو فوری طور پر سوشل میڈیا پر جاری کیا۔

انڈپینڈنٹ فارسی کے واجد روحانی کے مطابق ماہرین سمجھتے ہیں کہ طالبان نے اس تنازعے کو اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے اور افغان عوام کے قوم پرستانہ جذبات کو ایران کے خلاف ابھارنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ ایران کی افواج کے ساتھ سرحدی تنازع کے خاتمے کے بعد طالبان نے صوبہ نمروز میں نماز شکرانہ بھی ادا کی۔

افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ مسلسل تیسرا موقع ہے کہ اس کی افواج کی ایرانی سرحدی محافظوں کے ساتھ جھڑپ ہوئی ہے۔

واجد روحانی کے مطابق افغانستان کی علاقائی سالمیت اور آبی وسائل کے دفاع کا دعویٰ اور میڈیا اور سوشل نیٹ ورکس کا استعمال کرتے ہوئے طالبان اپنے حامیوں کی تعداد بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

افغانستان اور ایران کے درمیان زمینی کشیدگی کے علاوہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس ٹک ٹاک اور ٹوئٹر پر بھی دونوں ممالک سے تعلق رکھنے والے شہریوں میں زبانی کشیدگی کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔

ٹک ٹاک صارف عبداللہ قندزئی نے طالبان اور ایرانی محافظوں کے درمیان سرحدی تنازعے کی ویڈیو پوسٹ کرکے طالبان کی فتح کی دعا کی۔ دیگر ٹک ٹاک اور ٹوئٹر صارفین کی ایک بڑی تعداد نے ایران کے خلاف طالبان کے نقطہ نظر کا خیرمقدم کیا ہے۔

صوبہ ہرات کے ایک رہائشی فرہاد محمدی نے انڈپینڈنٹ فارسی کو بتایا کہ اس وقت طالبان وہ واحد قوت ہے جو بیرونی ممالک کے حملے کے خلاف افغانستان کا دفاع کر سکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا: ’لڑکیوں کے کام اور تعلیم پر پابندی کی وجہ سے میں اب بھی طالبان کے خلاف ہوں، لیکن طالبان نے دکھایا ہے کہ وہ ہمارے ملک کے دفاع کے لیے پرعزم ہیں اور اگر بات وطن کے دفاع کی ہے تو میں طالبان کی حمایت کرتا ہوں۔‘

ٹوئٹر پر ایک ویڈیو بھی وائرل ہے، جس میں ایک مقبول طالبان شخصیت جنرل مبین پانی کی بھری بالٹی لے کر ایران کو للکارتے نظر آئے۔

طالبان کے بارے میں عام تاثر ہے کہ وہ جنگ شروع کرنے سے نہیں ڈرتے۔ ان کی 21 ماہ سے زائد حکمرانی کے دوران وہ کئی بار اپنی خودکش فورس کی نمائش کر چکے ہیں اور خود کار بموں اور بارودی سرنگوں کا بڑے فخر سے ذکر کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے امریکہ اور نیٹو کو شکست دی ہے۔

افغان حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اربوں ڈالر مالیت کا امریکی اسلحہ بھی طالبان کے قبضے میں ہے۔

طالبان کے حامیوں نے نمروز صوبے میں ہفتے کو ایک جھڑپ سے منسوب ایک ویڈیو بھی ٹوئٹر پر شائع کی ہے، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طالبان کے ارکان فوجی گاڑیوں اور امریکی ہتھیاروں کے ساتھ نمروز کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ 

بعض تجزیہ کاروں کے مطابق اندرونی اختلافات کا شکار طالبان کے لیے ایران کے ساتھ سرحدی تنازعات دوبارہ متحد ہونے کا سبب بن سکتے ہیں۔ ان کے لیے ایسے جھگڑے معاشی و انسانی حقوق جیسے اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

ایران میں مقیم افغان پناہ گزینوں کے لیے مشکل

دوسری جانب ایران 40 لاکھ سے زائد افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرتا ہے اور سرحدی کشیدگی ان کی آبادکاری پر منفی اثرات مرتب کرسکتی ہے۔ بہت سے افغان تارکین وطن اس تناؤ سے پریشان ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کام کی تلاش میں چھ ماہ قبل ایران نقل مکانی کرنے والے ایک افغان شہری احمد خالد نے انڈپینڈنٹ فارسی کو بتایا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد وہ کئی ماہ تک بے روزگار تھے اور اسی وجہ سے انہیں ایران جانا پڑا۔

وہ مزید کہتے ہیں: ’اگر خدا نہ کرے، طالبان اور ایران کے درمیان جنگ ہوئی تو اس مسئلے کا ہم تارکین وطن کی زندگیوں پر منفی اثر پڑے گا۔ ہم سب ان سے بھاگ کر ایران چلے گئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ جنگ سے گریز کیا جائے گا۔ ایسی جنگ میں صرف افغان عوام ہی ہاریں گے۔‘

متعدد افغان تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ طالبان کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے اور اسی وجہ سے وہ سرحدی تنازعات میں ملوث ہیں۔

1973 کا آبی معاہدہ

افغانستان میں یہ تاثر عام ہے کہ ایران نے گذشتہ پانچ دہائیوں کے دوران دریائے ہلمند کے پانی سے اپنے حصے سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے اور یہی مسئلہ حالیہ کشیدگی کا بھی باعث بنا ہے۔

دوسری جانب طالبان کے سیاسی کمیشن کے ایک اجلاس میں ایران کے ساتھ 1973 کے آبی معاہدے کو قابل احترام قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔

افغان وزیراعظم کے نائب کے دفتر کے ترجمان محمد حسن حقیار نے کہا کہ معاہدے کے تمام قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے گا تاکہ ہر کسی کو ان کے حقوق مل سکیں۔

آبی وسائل کے ماہر نجیب اللہ سدید اس حوالے سے کہتے ہیں: ’میرے خیال میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایران ہلمند پر بہت زیادہ انحصار کر رہا ہے۔ گذشتہ 50 سالوں کے دوران افغانستان اپنے پانی کا انتظام نہیں کر سکا ہے، ایران نے اس پانی میں سرمایہ کاری کی ہے، حالانکہ وہ اس کا مالک نہیں ہے۔ وہ اس کے پانی کو زاہدان شہر سے بھی آگے تک لے کر گیا ہے۔‘

اس سے قبل ایرانی وزیر داخلہ احمد واحدی نے ایک عوامی فورم پر دریائے ہلمند میں پانی کی کمی کے بارے میں طالبان حکام کے بیانات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ موجودہ رپورٹس دعوؤں کے برعکس ہیں اور یہی وجہ ہے کہ حکام کا فیلڈ دورہ تجویز کیا گیا ہے اور اگر پانی نہیں ہے تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ