پاکستان نے بدھ کو ایک مرتبہ پھر ’افغانستان سے جنم لینے والی دہشت گردی‘ کو اپنی قومی سلامتی اور خودمختاری کے لیے ’سنگین ترین خطرہ‘ قرار دیتے ہوئے افغان طالبان پر ’ٹھوس اور قابلِ تصدیق اقدامات‘ کرنے پر زور دیا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں افغانستان کی صورت حال پر اپنے بیان میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے کابل پر افغان طالبان کی چار سالہ حکومت کی صورت حال پر تفصیلی روشنی ڈالی اور بتایا کہ کس طرح پاکستان نے ہر ممکن طریقے سے افغانستان کی انسانی بنیادوں پر مدد کی، لیکن اب یہ ملک ’دہشت گرد گروہوں اور پراکسیز کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے۔‘
عاصم افتخار نے کہا: ’دہشت گرد تنظیمیں، جن میں داعش خراسان، القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، مشرقی ترکستان اسلامی تحریک (ای ٹی آئی ایم)، بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل اے) اور مجید بریگیڈ شامل ہیں، افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں سے سرگرم ہیں، جہاں درجنوں تربیتی کیمپس سرحد پار دراندازی اور حملوں، بشمول خودکش حملوں، کو ممکن بناتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم کے مطابق ٹی ٹی پی، جس کے تقریباً چھ ہزار جنگجو ہیں، افغان سرزمین پر موجود سب سے بڑی اقوام متحدہ کی نامزد دہشت گرد تنظیم ہے۔ پاکستان نے افغانستان سے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کی دراندازی کی متعدد کوششوں کو کامیابی سے ناکام بنایا اور بین الاقوامی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد وہاں چھوڑے گئے جدید عسکری ساز و سامان کی بڑی مقدار ضبط کی۔‘
پاکستان اور افغانستان کے مابین رواں برس اکتوبر میں سرحدی جھڑپوں کے بعد سے تناؤ کی کیفیت ہے۔ پاکستان کا اصرار ہے کہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے عسکریت پسند سرحد پار حملے کرتے ہیں اور انہیں انڈین سرپرستی حاصل ہے، لیکن کابل اور نئی دہلی اس کی تردید کرتے ہیں۔
پاکستانی مندوب عاصم افتخار نے اپنے بیان میں کہا: ’طالبان کی صفوں میں موجود کچھ عناصر ان دہشت گرد گروہوں کو مدد فراہم کر رہے ہیں، انہیں محفوظ راستہ دے رہے ہیں اور انہیں بغیر کسی روک ٹوک کے کام کرنے کی آزادی دے رہے ہیں۔ مشترکہ تربیت، غیر قانونی اسلحے کی تجارت، دہشت گردوں کو پناہ دینا اور پاکستان کے خلاف افغان سرزمین سے مربوط حملوں کے شواہد بھی موجود ہیں۔‘
کسی ملک کا نام لیے بغیر پاکستانی مندوب نے مزید کہا کہ ’خطے میں ایک مخالف، موقع پرست اور ہمیشہ کی طرح بگاڑ پیدا کرنے والا ایک ملک، دہشت گرد گروہوں اور پراکسیز کی مادی، تکنیکی اور مالی سرپرستی میں اضافہ کر چکا ہے، جو افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں۔‘
As corroborated by the UN Monitoring Team, the TTP with nearly 6,000 fighters, is the largest UN-designated terrorist group based on Afghan soil. Pakistan has successfully thwarted multiple infiltration attempts of TTP and BLA terrorists from across Afghanistan, confiscating… pic.twitter.com/kqmu1vPsSE
— Permanent Mission of Pakistan to the UN (@PakistanUN_NY) December 10, 2025
افغان حکام کے ساتھ حالیہ کشیدگی اور مذاکرات کا ذکر کرتے ہوئے عاصم افتخار نے کہا کہ ’سنگین سکیورٹی خدشات‘ کے باوجود پاکستان نے طالبان حکام کے ساتھ ہر ممکن رابطہ برقرار رکھا، جن میں حالیہ دوحہ اور استنبول مذاکرات بھی شامل ہیں۔
اکتوبر میں ہونے والی سرحدی کشیدگی کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان پہلے دوحہ اور اس کے بعد استبول میں مذاکرات کے بعد اگرچہ دوحہ اور ترکی کی ثالثی میں عارضی امن کا معاہدہ ہوا ہے، لیکن دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی برقرار ہے اور سرحدیں بند ہونے کی وجہ سے دوطرفہ تجارت رکی ہوئی ہے۔
گذشتہ ہفتے بھی بلوچستان میں چمن کی سرحد پر پاکستانی اور افغان سکیورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا۔
پاکستانی مستقل مندوب نے افغان طالبان پر اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد گروہوں کے خلاف ’ٹھوس اور قابلِ تصدیق اقدامات‘ کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا: ’بصورت دیگر پاکستان اپنے شہریوں، اپنی سرزمین اور اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے تمام ضروری دفاعی اقدامات کرے گا۔‘
اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب نے امید ظاہر کی کہ ’طالبان ایک ایسے ماحول کو فروغ دیں گے جو مخلصانہ مکالمے کے لیے سازگار ہو، ہمارے جائز سکیورٹی خدشات کو سمجھے، متضاد پالیسیوں سے گریز کرے اور انکار کی حالت سے باہر نکلے، جو کسی کے فائدے میں نہیں۔‘
بقول عاصم افتخار: ’کوئی ملک افغانستان میں دہائیوں کی جنگ اور بدامنی کے نتائج کا پاکستان سے زیادہ نقصان نہیں اٹھا چکا، لہٰذا پاکستان افغان عوام اور خطے کے بہترین مفاد میں ایک پُرامن اور مستحکم افغانستان کے لیے کام کرتا رہے گا۔‘