افغانستان کے 34 صوبوں سے بدھ کو کابل میں جمع ہونے والے سینکڑوں علمائے کرام نے ایک قرارداد میں کہا ہے کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہو اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
افغان میڈیا کے مطابق کابل یونیورسٹی میں منعقد ہونے والے اس اجتماع میں سپریم کورٹ کے سربراہ مولوی عبدالحکیم حقانی، حسن اخلاق کے وزیر محمد خالد حنفی اور وزیر برائے اعلیٰ تعلیم ندا محمد ندیم سمیت دیگر اعلیٰ طالبان حکام نے شرکت کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس اجتماع میں ایک پانچ نکاتی قرارداد منظور کی گئی، جو سوشل میڈیا پر موجود ہے۔
قرارداد کے پہلے نکتے میں زور دیا گیا کہ اسلامی نظام کی حفاظت سب کی شرعی ذمہ داری ہے۔ ’اس کی اطاعت افغان عوام پر لازم ہے کیونکہ اسلامی نظام کا قیام ایک شرعی فریضہ ہے اور اس کی حفاظت بھی مسلمانوں پر لازم اور فرض ہے۔‘
دوسرے نکتے میں افغانستان پر حملے کے دفاع کو ’جہاد مقدس‘ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ ’اگر کوئی بیرونی طاقت افغانستان پر حملہ کرے یا اسلامی نظام کے خلاف سازش کرے، تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ پورے عزم کے ساتھ نظام، وطن اور اپنی دینی و ملی اقدار کا دفاع کریں۔‘
قرارداد کے تیسرے نکتے میں افغان سرزمین کو کسی ملک کے خلاف استعمال نہ کیے جانے کی بات ان الفاظ میں کی گئی: ’چونکہ امارتِ اسلامی افغانستان نے یہ عہد کیا ہے کہ افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گی، لہٰذا تمام مسلمان اور افغان عوام کا بھی فرض ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں اور اس عہد کی پابندی کریں۔ اگر کوئی فرد یا گروہ اس عہد کی خلاف ورزی کرے تو امارتِ اسلامی کو حق ہے کہ اس کے خلاف مناسب اقدامات اٹھائے۔‘
کابل یونیورسٹی میں بڑا اجتماع
— افغان اردو (@AfghanUrdu) December 10, 2025
ملک بھر کے 34 صوبوں سے 1000 علما و مشائخ کی شرکت
افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی
خلاف ورزی کرنے والے افراد کو باغی اور مخالف تصور کیا جائے گا
پانچ نکاتی قرارداد منظور pic.twitter.com/gpsoVjdqgQ
اگرچہ قرارداد میں کسی ملک کا نام نہیں لیا گیا تاہم عام خیال یہی ہے کہ یہاں مراد پڑوسی ملک پاکستان ہے، جس کا اصرار ہے کہ افغانستان میں موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسند سرحد پار حملے کرتے ہیں لیکن کابل اس کی تردید کرتا ہے اور اس کا موقف ہے کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔
دوسری جانب اس بات کا بھی ذکر نہیں کیا گیا کہ خلاف ورزی کرنے والوں کو کس طرح روکا جائے گا۔
قرارداد میں چوتھے نمبر پر کہا گیا کہ ’چونکہ کسی بھی فرد یا گروہ کو شرعی طور پر اجازت نہیں کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو کسی بھی سرگرمی کے لیے استعمال کرے جو اسلامی اصولوں، ملکی قوانین یا انتظامی ضوابط کے خلاف ہو، لہٰذا امارتِ اسلامی ایسے عناصر کے خلاف اقدام کرنے اور انہیں روکنے کا حق رکھتی ہے۔‘
آخر میں قرارداد میں مسلمانوں پر تفرقے اور لڑائی سے بچنے پر زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ ’وہ اسلامی اخوت کے تحت بہتر تعلقات، مثبت روابط اور خیرخواہی کا ماحول قائم رکھیں،‘ اور علمائے کرام اس سلسلے میں عوام میں شعور بیدار کریں۔
ذرائع کے مطابق یہ قرارداد اجلاس میں شریک علما کے لیے جاری کی گئی تھی، جو ان ہی تک محدود رہنی تھی، لیکن یہ اب سوشل میڈیا پر موجود ہے۔
دوسرا فی الوقت اس حوالے سے بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں شامل نکات کس حد تک قابل عمل ہیں۔