پاکستان میں کرکٹ میں حالیہ برسوں میں جس تیزی سے سرمایہ کاری ہوئی ہے اور کھلاڑیوں کی آمدن میں اضافہ ہوا ہے اس کی کسی اور کھیل میں مثال نہیں ملتی۔ پیسے کی اس ریل پیل نے کرکٹ بورڈ کو بھی مالا مال کر دیا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) بھی بہت زیادہ پیسے کمانے والے بورڈز میں شامل ہے۔
پی سی بی نے دیگر بورڈز کی طرح کچھ سال قبل کھلاڑیوں کو سینٹرل کنٹریکٹ دینے کا آغاز کیا ہے جس میں ہر سال کھلاڑیوں کو چار مختلف کیٹگریوں میں سالانہ معاہدے دیئے جاتے ہیں۔
پی سی بی ذرائع بتاتے ہیں کہ پہلی کیٹگری اے ہے جس میں کھلاڑی 55 لاکھ روپے ماہانہ حاصل کرتے ہیں جبکہ بی، سی اور ڈی کیٹگری میں بالترتیب 45، 35 اور 25 لاکھ روپے ملتے ہیں۔
ان چاروں کیٹگریز میں ماضی میں 25 سے تیس کھلاڑی شامل ہوتے تھے جن میں تین یا چار کھلاڑی سب سے اعلی کیٹگری اے میں ہوتے تھے۔ عمومی طور پر وہ کھلاڑی جو تینوں فارمیٹ یعنی ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کھیلتے ہیں وہ اس کے حق دار ہوتے تھے لیکن کچھ ایسے بھی رہے ہیں جو تینوں فارمیٹ کھیل رہے تھے لیکن اے میں نہ آسکے۔ شان مسعود 2022 میں تینوں فارمیٹ میں تھے لیکن اس کیٹگری سے محروم رہے۔
دوسری طرف شاداب خان ٹیسٹ ٹیم کا حصہ نہ ہوتے ہوئے اے حاصل کرگئے تھے۔
2025 کے نئے معاہدے
پی سی بی نے 2025-26 کے لیے تیس کھلاڑیوں کے لیے سینٹرل کنٹریکٹ کا اعلان کیا ہے جنہیں بی، سی اور ڈی کیٹگری میں تقسیم کیا گیا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر اے کیٹگری میں کوئی کھلاڑی نہیں ہے۔
حالانکہ فارمیٹ کے لحاظ سے کئی کھلاڑی ہیں جو تینوں فارمیٹ کھیل رہے ہیں جن میں سلمان علی آغا، شاہین آفریدی، محمد حارث رؤف اور فہیم اشرف وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے کسی کا بھی اے کیٹگری میں شامل نہ ہونا کس بات کی علامت ہے؟ کیا بورڈ ان کی کارکردگی کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ انہیں یہ کیٹگری دی جائے ؟
نئے معاہدوں کو اگرچہ منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے اور نہ ہی ان کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا ہے لیکن ذرائع کے مطابق کھلاڑی بورڈ کے اس فیصلہ پر خوش نہیں ہیں۔
گذشتہ چیئرمین ذکا اشرف کے زمانے میں سینٹرل کنٹریکٹ پر بھی کافی تنازعات رہے تھے اور کھلاڑی معاہدوں پر دستخط نہیں کر رہے تھے تاہم ایک سابق کرکٹر کی مداخلت پر کھلاڑیوں نے دستخط کیے تھے۔
اس وقت یہ بات سامنے نہیں آسکی تھی کہ موصوف نے کیسے سب کھلاڑیوں کو راضی کر لیا لیکن بعد میں راز کھلا کہ یہ محترم سابق کرکٹر تو دراصل کچھ کھلاڑیوں کے کاروبار میں حصہ دار تھے۔
کیا کھلاڑی معاہدوں کے مستحق ہیں؟
ان معاہدوں کے منظر عام آنے پر ایک طبقہ بورڈ پر تنقید کر رہا ہے کہ خود تو کروڑوں میں خرچے کرنے والے بورڈ افسران کھلاڑیوں کی تنخواہوں میں کٹوتی کر رہے ہیں حالانکہ بورڈ کی تمام آمدن ان کھلاڑیوں کے باعث ہی ہے۔ اگر کھلاڑی نہ ہوں تو بورڈ کی آمدن صفر ہوگی۔
لہذا سوال تو یہ ہی ہے کہ جن کی وجہ سے دولت کی یہ ریل پیل ہے انہیں کیوں نہیں جائز حصہ دیا جا رہا ہے؟ بورڈ کا موقف ہے کہ اس ساری آمدن پر پاکستان کی مکمل کرکٹ کا حق ہے اور بورڈ قومی ٹیم کے علاوہ ڈومیسٹک ٹورنامنٹس، خواتین اور سکول کالج کرکٹ کے اخراجات بھی اٹھا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نئے گراؤنڈز کی تعمیر اور پرانوں کی بہتری پر بہت زیادہ پیسہ خرچ کررہا ہے۔
اس ساری بحث میں سب سے اہم نکتہ تاہم یہ ہے کہ کیا سارے حصے دار اتنی بھاری تنخواہوں کے مستحق بھی ہیں؟
اگر قومی ٹیم کی کارکردگی دیکھی جائے تو ٹیم نے گذشتہ ایک سال میں دو آئی سی سی ایونٹ کھیلے اور دونوں میں بدترین کارکردگی دکھائی۔
گذشتہ سال ورلڈ کپ میں امریکہ جیسی چوتھے درجے کی ٹیم کے ہاتھوں شکست نے سارے ’کنگز‘ کا بھرم کھول دیا۔ چیمپئینز ٹرافی میں ہوم ایڈوانٹج سے فائدہ تو کجا نقصان بھی بھاری بھرکم اٹھایا۔
اس سے قبل نیوزی لینڈ سے سیریز ہار گئے، پھر ٹرائی نیشن بھی ہار گئے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں ساؤتھ افریقہ سے تو شکست پہلے سے درج تھی لیکن ویسٹ انڈیز جیسی ناتجربہ کار ٹیم سے اپنے گھر میں ہار گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹی ٹوئنٹی میں آسٹریلیا اور زمبابوے نے بری طرح شکست دی حالانکہ آسٹریلیا کے سارے اچھے کھلاڑی غیر حاضر تھے۔
بنگلہ دیش جیسی کمزور ترین ٹیم سے شکست کھاگئے اور پھر ویسٹ انڈیز گئے تو وہاں پوری ٹیم آخری میچ میں 100 رنز بھی نہ بناسکی۔ سیریز کی شکست نے خبر تو بنائی لیکن کھلاڑی اپنے حال میں مست رہے کیونکہ گٹھریاں بھر کر نوٹ جو ہر مہینے مل رہے تھے۔
اگر پاکستان ٹیم کی سال بھر کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو کسی بھی کھلاڑی کی ایسی کوئی کارکردگی نہیں ہے کہ جس پر اسے 30 سے 55 لاکھ روپے تک ماہانہ دیئے جائیں۔ رنز کے اعتبار سے اپنے من پسند فارمیٹ ٹی ٹوئنٹی میں صائم ایوب نے 15 میچوں میں سب سے زیادہ 419 رنز بنائے ہیں جبکہ بولنگ میں حارث رؤف 25 وکٹوں کے ساتھ سرفہرست ہیں لیکن دونوں کھلاڑی کسی بھی میچ میں فتح گر نہیں تھے۔
ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان نے 14 میچ شکست کا منہ دیکھا جبکہ گیارہ میں فتح یاب ہوئے۔
پاکستان نے گذشتہ ایک سال میں بیس ون ڈے کھیلے جن میں گیارہ میں شکست ہوئی ہے۔ بیٹنگ میں سلمان علی آغا 629 رنز بناکر سر فہرست ہیں جبکہ بولنگ میں شاہین شاہ آفریدی 27 وکٹوں کے ساتھ سب سے اوپر ہیں۔
ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان نے گذشتہ ایک سال میں نو ٹیسٹ میچ کھیلے جن میں تین جیتے اور چھ ہار گئے۔ بیٹنگ میں سعود شکیل 691 رنز بناکر سرفہرست رہے اور بولنگ میں نعمان علی 36 وکٹ لے کر سر فہرست رہے۔ ان کی بولنگ کی وجہ سے پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف سیریز جیتی۔
پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ میں زبوں حالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ٹیسٹ کپتان شان مسعود سب سے نچلی کیٹگری ڈی میں ہیں۔
اس ساری مجموعی کارکردگی کے بعد اگر اے کیٹگری میں کوئی کھلاڑی نہیں ہے تو وہ بنا کسی وجہ کے نہیں ہے بلکہ کھلاڑیوں کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ ان کی پورے سال میں کارکردگی واجبی کیوں رہی ہے؟
پی سی بی نے اگر اے کیٹگری میں کسی کھلاڑی کو نامزد نہ کرکے پیسے بچائے ہیں تو دوسری طرف دنیائے کرکٹ میں اپنی نااہلی بھی ثابت کر دی ہے کہ پاکستان کرکٹ اب ماضی کی طرح عالمی معیار کے کھلاڑی پیدا نہیں کرسکتا ہے۔
کون سے کھلاڑی رہ گئے اور کون زبردستی موجود ہے؟
سینٹرل کنٹریکٹ کی مختلف کیٹگریز میں کئی ایسے کھلاڑی ہیں جن کی شمولیت باعث حیرت ہے۔ محمد حارث جو مسلسل ناکام ہو رہے ہیں انہیں شاید علاقائی کوٹہ پر رکھا گیا ہے۔ خوشدل شاہ، شاداب خان اور فہیم اشرف کی شمولیت بھی تعجب خیز ہے۔
شاداب خان طویل عرصہ سے زخمی ہیں اور مزید چند ماہ نہیں کھیل سکتے ہیں لیکن نہ معلوم کس کی سفارش پر 45 لاکھ روپے مہینہ لے رہے ہیں حالانکہ گذشتہ دو سال میں وہ سب سے ناکام کھلاڑی ہیں۔ خوشدل شاہ اور فہیم اشرف کی کارکردگی بھی صفر ہے لیکن موجود ہیں۔ ان کھلاڑیوں کو کنٹریکٹ دے کر پی سی بی نے خود اپنا مذاق بنا لیا ہے۔
لیکن جسے کنٹریکٹ ملنا چاہیے تھا انہیں نہیں ملا۔ پاکستان شاہین کے کپتان عرفان خان کو نظر انداز کرنا حیرت کی بات ہے۔
سب سے زیادہ زیادتی بظاہر عامر جمال کے ساتھ ہوئی ہے۔ عامر کو ایک غیر ارادی عمل کی اتنی سخت سزا دی گئی ہے کہ ہر فارمیٹ کی ٹیم سے ڈراپ کرکے اب کنٹریکٹ سے بھی فارغ کر دیا گیا حالانکہ وہ مکمل فٹ ہیں اور آسٹریلیا کے دورے کے ہیرو تھے۔
تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سینٹرل کنٹریکٹ میں تمام نام اور کیٹگری عاقب جاوید نے شامل کیے ہوئے ہیں جو گذشتہ ایک سال سے پاکستان کرکٹ کو بظاہر برباد کرنے کے مشن پر ہیں۔ وہ دبئی میں سست پچ پر چار فاسٹ بولرز اور نیوزی لینڈ کی تیز ترین پچوں پر تین سپنرز کھلانے کی عظیم حکمت عملی کے خالق ہیں۔
ان سے ہی ایسی طفلانہ غلطیاں ممکن ہیں ورنہ کارخانہ پاکستان کرکٹ میں بہت سے ذہین لوگ موجود ہیں لیکن بورڈ ان سے فائدہ اٹھانا شاید توہین سمجھتا ہے۔