پی او آر کارڈ کی معیاد آج مکمل، لاکھوں افغان پناہ گزین قانونی تحفظ سے محروم

پاکستانی حکومت کے افغان پناہ گزینوں کو جاری کردہ پروف آف رجسٹریشن کارڈ کی مدت 30 جون کو ختم، اس کارڈ کے حامل افراد کو بھی اب افغانستان واپس بھیجا جائے گا۔

31 اکتوبر، 2023 کو افغان پناہ گزین براستہ طورخم افغانستان واپس جا رہے ہیں (اظہار اللہ)

’تقسیم ہند کے وقت میرے والد بطور کنڈکٹر کام کرتے تھے اور پاکستان آتے جاتے تھے، پھر وہ یہیں پر رہ گئے۔ ہمارے پورے خاندان کی پیدائش پاکستان میں ہوئی ہے، لیکن اب ہمیں واپس جانے کا کہا جا رہا ہے۔‘

یہ کہنا تھا پشاور میں مقیم افغان پناہ گزین لقمان خان کا، جن کے خاندان کے بعض افراد کے پاس افغان سٹیزن کارڈ جبکہ بعض کے پاس پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ ہے۔

لقمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ ان کے والد بطور بس کنڈکٹر کام کرتے تھے اور بنکاک بھی جاتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ اس زمانے کا ایک پاکستانی شناختی کارڈ بھی والد کے پاس موجود ہے، لیکن ان کے والد نے کارڈ پر اتنی توجہ نہیں دی اور پاکستانی شہریت بھی حاصل نہیں کی۔

لقمان کے مطابق ’اس وقت سے اب تک ہم پاکستان میں مقیم ہیں اور یہیں پر ہمارا گزر بسر ہے۔

’زبان بھی اب پاکستانی شہریوں کی طرح ہو گئی ہے لیکن اب بڑا مسئلہ واپس جانے کا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ہماری تیسری نسل پاکستان میں مقیم ہے۔ جو لوگ اُس وقت افغانستان سے آئے تھے، ان کا انتقال ہو چکا اور جتنے بھی بعد کے لوگ ہیں، ان میں زیادہ تر پاکستان میں پیدا ہوئے۔‘

بقول لقمان ’میں افغانستان بہت کم گیا ہوں۔ مجھے وہاں کی گلیوں اور راستوں کا بھی نہیں پتہ تو واپس جا کر ہمیں یہی خوف ہے کہ وہاں ہم کیا کریں گے۔‘

پاکستانی حکومت کی جانب سے افغان پناہ گزینوں کو دیے گئے پی او آر کارڈ کی مدت آج 30 جون کو ختم ہو رہی ہے اور اس کارڈ کے حامل افراد کو بھی افغانستان بھیجا جائے گا۔

پاکستان نے 2006 میں افغان پناہ گزینوں کو پی او آر کارڈ جاری کیا تھا، جو ان کے لیے پاکستان میں قیام کی ایک قانونی دستاویز تھی۔

یہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی جانب سے پاکستانی شناختی کارڈ کی طرز کا ایک کمپیوٹرائزڈ کارڈ ہے، جس پر افغان پناہ گزینوں کو مختلف بنیادی سہولیات تک رسائی ممکن تھی۔

اقوام متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزین ’یو این ایچ سی آر ‘کے مطابق تقریباً 15لاکھ افغان پناہ گزینوں کے پاس پی او آر کارڈ ہے، جنہیں اب پاکستان سے نکالا جائے گا۔

پہلے مرحلے میں بغیر دستاویزات کے پناہ گزینوں کو پھر افغان سٹیزن کارڈ کے حامل پناہ گزینوں اور اب آخری مرحلے میں پی او آر کارڈ کے حامل افغان پناہ گزینوں کو ملک سے نکالا جا رہا ہے۔

لقمان کے مطابق ایک سنگین مسئلہ یہ بھی ہے کہ خاندان کے بعض افراد کے پاس افغان سٹیزن کارڈ (جن کو پہلے بے دخل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ) اور بعض کے پاس پی او آر کارڈ ہے تو اب خاندان کے بعض افراد کو ڈی پورٹ کیا جائے گا اور بعض کو شاید کچھ نہ کہا جائے۔

’میں ایسے خاندانوں کو بھی جانتا ہوں جن کی ایک اہلیہ افغان شہری اور ایک پاکستانی ہے اور اب شوہر اور افغان اہلیہ کو واپس جانے کا کہا جا رہا ہے جبکہ پاکستانی اہلیہ یہاں رہنے پر بضد ہے۔‘

یو این ایچ سی آر کے اعدادوشمار کے مطابق ستمبر 2023 سے سات جون، 2025 تک 10 لاکھ سے زائد افغان پناہ گزین پاکستان سے واپس جا چکے ہیں۔

اعدادوشمار کے مطابق ان میں سے نو لاکھ سے زائد پناہ گزین بغیر دستاویزات کے مقیم تھے، جو اب جا چکے ہیں۔

50 ہزار سے زائد افغان سٹیزن کارڈ کے حامل پناہ گزین جبکہ ایک لاکھ سے زائد پی او آر کارڈ والے بھی اپنی رضامندی سے افغانستان واپس جا چکے ہیں۔

پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی تاریخ

70 کی دہائی میں سویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران افغان پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد نے پاکستان کا رخ کیا جہاں وہ ابتدائی دنوں میں کیمپوں میں آباد ہوئے۔

یو این ایچ سی آر کے جون 2025 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 30 لاکھ سے زیادہ افغان پناہ گزین آباد ہیں، جن میں 15 لاکھ تک باقاعدہ رجسٹرڈ اور تقریباً آٹھ لاکھ عارضی افغان سٹیزن کارڈ رکھتے ہیں۔

یو این ایچ سی آر کے مطابق ابتدا میں پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کی بہترین میزبانی کی اور ان کو تعلیم اور صحت کی رسائی دی گئی۔

تاہم انہیں کاروبار اپنے نام سے رجسٹر کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ افغان طالبان کے پہلے دورِ حکومت کے بعد بھی افغان پناہ گزینوں کا پاکستان آنے کا سلسلہ جاری رہا جبکہ 2001 کے بعد نیٹو افواج کے افغانستان میں داخلے کے بعد بھی پناہ گزین پاکستان آرہے تھے۔

یو این ایچ سی آر کے مطابق 2023 میں رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کو نادرا نے 13 لاکھ سمارٹ پروف آف رجسٹریشن کارڈ (پی او آر) جاری کیے جن کی مدت پہلے جون 2023 اور پھر جون 2025 تک بڑھائی گئی۔

سمارٹ پی او آر کارڈ کے حامل افغانوں کو تعلیم، صحت، موبائل سم کارڈ رجسٹریشن اور بینکنگ جیسی سہولتوں تک رسائی ممکن تھی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یو این ایچ سی آر اور مختلف غیر سرکاری اداروں کی معاونت سے ملک بھر میں افغان پناہ گزینوں کے لیے تعلیم کی سہولت فراہم کرنے کے لیے تعلی ادارے بھی قائم کیے گئے۔

آرمی پبلک سکول حملہ اور پالیسی میں تبدیلی

2014 میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد پاکستان میں نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا، جس میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اقدامات شامل تھے۔

پاکستانی حکام کے مطابق تحقیقات سے معلوم ہوا کہ کئی عسکریت پسند کارروائیوں کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی اور آرمی پبلک سکول حملہ بھی انہی میں شامل تھا۔ 

نیشنل ایکشن پلان میں بغیر دستاویزات کے افغان پناہ گزینوں کو 2015 تک رجسٹر کرنے کی تجویز شامل تھی۔

تاہم غیر سرکاری ادارے انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز کے مطابق سکول پر حملے کے بعد بغیر دستاویزات کے افغان پناہ گزینوں کو ملک سے نکالے جانے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔

اس ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق 2017 تک تقریباً چھ لاکھ افغان پناہ گزینوں کو ان کے ملک واپس بھیجا گیا جبکہ افغان پناہ گزینوں کے پاس موجود تقریباً ایک لاکھ جعلی پاکستانی شناختی کارڈ بھی بلاک کیے گئے۔

دسمبر 2017 کے بعد افغان پناہ گزین کی ملک بدری کا سلسلہ تھم گیا۔

تاہم 2023 میں حکومت پاکستان نے بغیر دستاویزات کے افغان پناہ گزینوں کے انخلا کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا اور آٹھ لاکھ سے زیادہ افغانوں کو پاکستان چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا۔

پاکستان کی وفاقی حکومت کے مطابق پی او آر کارڈ کے حامل افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کا سلسلہ 30 جون، 2025 کے بعد شروع ہو گا اور آج وہ ڈیڈ لائن ختم ہو گئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان