’میں آپ میں سے ایک ہوں:‘ افغان وزیر خارجہ کا دورہ دارالعلوم دیوبند

افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کا انڈیا کے تاریخی اور معروف دینی ادارے دارالعلوم دیوبند کا دورہ انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

افغانستان میں طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے ہفتے کو انڈین ریاست اتر پردیش کے تاریخی اور معروف دینی ادارے دارالعلوم دیوبند کا دورہ کیا، جسے مذہبی اور سفارتی لحاظ سے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

متقی نئی دہلی سے سڑک کے ذریعے سہارن پور ضلعے کے دارالعلوم دیوبند پہنچے، جہاں ان کا استقبال مذہبی اور تعلیمی شخصیات نے کیا۔

دارالعلوم پہنچنے پر طلبہ نے ان کی کار کو گھیر لیا اور انہیں دارالحدیث لے جایا گیا جہاں اساتذہ کی موجودگی میں انہوں نے درس حدیث دیا۔

دارالعلوم دیوبند کے استاد مولانا اشرف عباسی نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا کہ امیر خان متقی تقریباً ساڑھے 11 بجے پہنچے اور ظہر کی نماز پڑھ کر واپس لوٹ گئے۔ 

ان کے مطابق متقی کی جامع علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی اور دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ کے ساتھ نشست بھی ہوئی۔

مولانا اشرف کے مطابق افغان وزیر خارجہ کو خطاب بھی کرنا تھا، تاہم سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اسے ملتوی کردیا گیا۔

مولانا ارشد مدنی نے میڈیا کو بتایا کہ افغانستان کے دارالعلوم دیوبند سے گہرے رشتے رہے ہیں۔ ’ہم نے آزادی ہند کی لڑائی میں افغانستان کی زمین سے مدد حاصل کی۔ وہ ہمارے بھائی ہیں اور ہمارے رشتے اور بھی بہتر ہوں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا ’اب تک افغانستان کی سرزمین سے دہشت گرد آتے تھے، مگر اب نہیں آئیں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ مہمان وزیر خارجہ سے کوئی سیاسی بات چیت نہیں ہوئی۔ 

واضح ہو کہ دارالعلوم دیوبند میں فی الوقت افغانستان کے تقریباً 20 طلبہ زیرِ تعلیم ہیں، جن سے متقی نے ملاقات کی۔ 

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی نے متقی پر عائد سفری پابندی عارضی طور پر اٹھائی تھی جس کے بعد وہ انڈیا کا دورہ کر پائے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2021 میں طالبان کے برسر اقتدار آنے اور افغانستان میں 20 سالہ امریکی فوجی موجودگی کے خاتمے کے بعد کسی اعلیٰ طالبان رہنما کا یہ انڈیا کا پہلا دورہ ہے۔

ان کے اس دورے پر انڈین میڈیا میں کافی چرچا ہے۔ متقی نے اپنے دورے میں ایک ایسی ریاست کو چنا جہاں کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ طالبان کی حمایت یا اس کی بات کرنے والوں کو گرفتار کرنے کی وکالت کرتے ہیں۔

اس سے پہلے نئی دہلی میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران متقی نے کہا تھا کہ ’افغانستان اور دیوبند کے علما کے درمیان دیرینہ مذہبی اور فکری روابط قائم ہیں۔‘

ان کے مطابق افغانستان میں ایک بڑی تعداد دیوبندی مکتبِ فکر سے وابستہ ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان علمی و مذہبی روابط کو مزید مضبوط کرنا طالبان حکومت کی خواہش ہے۔‘ 

دیوبند میں انہوں نے میڈیا سے کوئی بات نہیں کی۔ تاہم درس حدیث کے دوران انہوں نے اپنے خیالات کو دہرایا اور کہا کہ ’میں آپ سے محبت کرتا ہوں اور میں آپ میں سے ایک ہوں۔‘

انہوں نے مزید کہا ’ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان اور انڈیا کے درمیان علمی و ثقافتی تبادلے دوبارہ بحال ہوں۔ افغان طلبہ دیوبند سمیت انڈیا کے مختلف اداروں میں دینی، انجینیئرنگ اور دیگر علوم کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔‘

یہ پہلا موقع ہے کہ طالبان حکومت کا کوئی اعلیٰ نمائندہ باضابطہ طور پر دارالعلوم دیوبند پہنچا۔ اس اقدام کو دونوں ممالک کے درمیان نرم سفارتی رابطے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا