پاکستان فوج نے منگل کو افغانستان کی جانب سے خوست میں فضائی حملے کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان نے افغانستان کے اندر عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا۔‘
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے آج میڈیا سے گفتگو میں کہا ’ہماری پالیسی دہشت گردی کے خلاف ہے، ہماری پالیسی افغان عوام کے خلاف نہیں۔
’پاکستان نے افغانستان میں گذشتہ روز کوئی کارروائی نہیں کی، پاکستان جب بھی کارروائی کرتا ہےاس کا باقاعدہ اعلان کرتا ہے۔‘
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس سے قبل آج ایکس پر ایک پوسٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کی افغانستان کے مختلف علاقوں میں فضائی کارروائیوں میں کم از کم 10 افراد مارے گئے۔
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا ’پاکستان فوج نے ایک مقامی شہری کے مکان کو بمباری سے نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں خوست صوبے میں نو بچے (پانچ لڑکے اور چار لڑکیاں) اور ایک خاتون مارے گئے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ کنڑ اور پکتیکا کی سرحدی علاقوں کو بھی ’پاکستانی فوج نے فضائی کارروائیوں سے ہدف‘ بنایا جس میں چار مزید شہری زخمی ہوئے۔
بعدازاں ذبیح اللہ مجاہد نے ایک الگ سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا ’امارت اسلامیہ اس خلاف ورزی کی شدید مذمت کرتی ہے اور اس بات کا اعادہ کرتی ہے کہ اپنی فضائی حدود، سرزمین اور لوگوں کا دفاع اس کا جائز حق ہے اور وہ مناسب وقت پر اس کا مناسب جواب دے گی۔‘
تاہم پاکستان فوج کے ترجمان ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے میڈیا بریفنگ کے دوران افغانستان کے ان تمام الزامات کی تردید کی۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان الااعلان حملہ کرتا ہے اور شہریوں کو نشانہ نہیں بناتا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق دوحہ مذاکرات میں پاکستان کی پوزیشن واضح تھی اور جو دہشت گردوں کے خلاف پاکستان نے ثبوت دیے انہیں افغان حکام جھٹلا نہیں سکے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گذشتہ چند سالوں کے واقعات میں امریکی ساختہ ہتھیار استعمال ہوئے اور اس حوالے سے امریکی حکام کے ساتھ معاملہ اٹھایا گیا ہے۔
’وانا کیڈٹ کالج حملے میں بھی امریکی ساختہ اسلحہ استعمال ہوا جو دہشت گردوں کے قبضے سے تحویل میں لیا گیا۔‘
ترجمان پاکستان فوج نے بتایا کہ ایف سی ہیڈ کوارٹر حملے پر ملوث ’دہشت گرد‘ تیرہ سے آئے تھے اور یہ علاقہ ’دہشت گردوں کا گڑھ بن رہا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’تیرہ میں دہشت گردوں کی سیاسی سرپرستی ہو رہی ہے۔‘
پشاور میں ایف سی ہیڈ کواٹرز کو پیر کو خودکش حملے سے نشانہ بنایا گیا تھا۔
اس حملے کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی، لیکن سرکاری نشریاتی ادارے پی ٹی وی کے مطابق حملہ آور افغان شہری تھے اور صدر آصف زرداری نے ’غیر ملکی حمایت یافتہ فتنہ الخوارج‘ کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
اس ماہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک عدالت کے باہر ایک اور خودکش دھماکے میں 12 افراد مارے گئے تھے جس کی ذمہ داری پاکستانی طالبان کے ایک دھڑے نے قبول کی تھی۔
پاکستان اور افغانستان میں اکتوبر میں شدید سرحدی جھڑپوں میں اموات کے بعد حالات کشیدہ ہیں اور دوحہ میں عارضی فائر بندی کے بعد ترکی میں پائیدار امن حاصل کرنے کے لیے مذاکرات بے نتیجہ رہے۔
’سرحد پر آبادی ہو تو بارڈر مینیجمنٹ کیسے ہو‘
پاکستان اور افغانستان کی صوبہ خیبر پختونخوا میں سرحد 1229 کلومیٹر طویل ہے، جس کے بارے میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ’کے پی (خیبر پختونخوا) سے افغانستان میں 20 کراسنگ پوائنٹس ہیں اور وہاں ہر 15، 20 کلومیٹر کے فاصلے پر چیک پوسٹیں ہیں جبکہ زیادہ تر علاقہ پہاڑی اور دشوار گزار ہے۔
انہوں نے کہا ’مسئلہ تقسیم شدہ دیہات کا ہے۔ خیبر پختونخوا کی سرحد پر 29 گاؤں ہیں جس کی 18 لاکھ آبادی افغانستان کی طرف جبکہ ساڑھے چار لاکھ پاکستان کی طرف ہے۔‘
انہوں نے سوال کیا کہ جب سرحد پر آبادی ہو گی تو بارڈر مینیجمنٹ کیسے ہو؟
جنرل احمد شریف کے مطابق ’افغان اس وقت پاکستان میں مہمانوں کا کردار نہیں ادا کر رہے۔ کون سا مہمان کسی کے گھر کلاشنکوف لے کر جاتا ہے؟
’کون سا مہمان میزبان کے گھر دہشت گردی پھیلاتا ہے۔ افغانستان کے ترجمان وزرات خارجہ کا ایکس اکاؤنٹ انڈیا سے آپریٹ ہوتا ہے۔ اس سے بڑا چشم کشا انکشاف کیا ہو گا؟‘
انڈین وزیر دفاع کے بیان پر ردعمل
ڈی جی آئی ایس پی آر نے سندھ کو انڈیا کا حصہ بنانے سے متعلق انڈین وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے ایک بیان پر کہا ’آپریشن سندور نے انڈیا کے منہ پر کالک ملی ہے، اس لیے مضحکہ خیز بیانات سامنے آ رہے ہیں۔
’اگر انڈیا حملہ کرتا ہے پاکستان کاجواب مزید سخت ہو گا۔‘
انہوں نے کہا ’پاکستان نے خطے میں اپنا کردار پر امن ملک کے طور پر بخوبی نبھایا، مگر بدمعاشی کا جواب دینا جانتے ہیں۔
’مئی میں ہم نے دکھا دیا کہ کسی کی مدد کے بغیر اللہ اکبر کہا اور دشمن کو اس کے ٹریلر میں سات جہاز، ایس 4 بیٹری اور 26 ملٹی ٹارگٹس کی تباہی کا تحفہ دیا۔‘
’2025 میں 1879 عسکریت پسند مارے گئے‘
انہوں نے پاکستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف ہوئی کارروائی کی تفصیل شیئر کرتے ہوئے کہا ’چار نومبرکے بعد سے اب تک 206 دہشت گرد مارے گئے۔ خودکش حملے کرنے والے سب افغان ہیں۔
’جنوری سے اب تک انٹیلی جنس کی بنیاد پر 67,623 آپریشن کیے گئے۔ خیبر پختونخوا میں 12,857 جبکہ بلوچستان میں 53,309 اور باقی پورے ملک میں 857 ہوئے۔
ان میں ’1873 دہشت گردوں کو مارا گیا جبکہ 607 شہادتیں ہوئیں۔‘
’ہماری نظر میں کوئی گڈ اور بیڈ طالبان نہیں‘
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا ’دہشت گردوں میں کوئی تفریق نہیں۔ ہماری نظر میں کوئی گڈ اور بیڈ طالبان نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’2021 سے 2025 تک ہم نے افغان حکومت کو باربار انگیج کیا۔ سرحد پارسے دہشت گردی کی معاونت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارا مسئلہ افغان عبوری حکومت سے ہے، افغانستان کے لوگوں سے نہیں۔ افغان رجیم دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف قابل تصدیق کارروائی کرے۔
’دہشت گردوں کے خلاف قابل تصدیق کارروائی تک بات چیت نہیں ہو گی۔ پاکستان کے عوام اور افواج دہشت گردوں کے خلاف متحد ہیں، دہشت گردوں کا آخری دم تک پیچھا کیا جائے گا۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر سے جب پوچھا گیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کو پاکستان واپس لانے والوں میں عمران خان کے ساتھ جنرل فیض حمید اور جنرل باجوہ بھی ملوث ہیں تو کیا انہیں بھی کٹہرے میں لایا جائے گا؟
اس پر انہوں نے کہا ’اس وقت بھی حکومت دہشت گردوں کے ساتھ بات کرنا چاہتی تھی اور آج بھی یہ لوگ دہشت گردوں سے مذاکرات چاہتے ہیں۔
’فوج نے حکومت کے ساتھ چلنا ہوتا ہے۔ اس وقت کی حکومت نے کہا تھا کہ بات چیت کر کے مسئلے کو حل کریں۔‘
پاکستان کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈا پر انہوں نے کہا ’پی ٹی آئی اور مراد سعید کا ایکس اکاؤنٹ امریکہ سے چل رہا ہے۔ منظور پشتین کا یورپ جبکہ ماہرنگ بلوچ کا سنگاپور سے آپریٹ ہو رہا ہے۔
’اس لیے میں کہتا ہوں کہ پاکستان مخالف بیانیہ بنانے والے تمام اکاونٹس بیرون ملک بیٹھ کر آگ لگا رہے ہیں۔‘
’جنرل فیض حمید کا ٹرائل مکمل نہیں ہوا‘
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ ریٹائر جنرل فیض حمید کے فوجی عدالت میں ٹرائل پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’ٹرائل ابھی مکمل نہیں ہوا‘۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک قانونی اور عدالتی عمل ہے اس لیے مزید تفصیل نہیں بتا سکتے، جیسے ہی عملدرآمد ہو گا اور کوئی فیصلہ آئے گا تو بتائیں گے۔
’فوج کا احتساب کا نظام بہت سخت ہے اور تمام قانونی تقاضے و طریقہ کار اپنایا جاتا ہے۔‘