پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کو بند ہوئے 40 دن سے زیادہ گزر چکے ہیں اور یہ ’سرحدی مسئلہ‘ لاکھوں پاکستانیوں کی زندگی اور روزگار کی بنیاد ہلانے کا سبب بن سکتا ہے۔
یہ بندش یاد دلاتی ہے کہ معیشت صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ لوگوں کی محنت، امیدیں اور خواب بھی ہے۔
افغانستان ان چند ممالک میں سے ایک ہے جس کے ساتھ پاکستان کی ٹریڈ سرپلس ہے، یعنی پاکستان افغانستان کو زیادہ اشیا برآمد اور کم اشیا درآمد کرتا ہے۔
اس وقت ٹریڈ سرپلس دو ارب ڈالرز سے زیادہ ہے۔ یہ سرحد صرف افغانستان کے ساتھ تجارت کے لیے استعمال نہیں ہوتی بلکہ وسط ایشیائی ممالک کو تجارت بھی افغانستان کے راستے ہوتی ہے۔
ان ممالک کے ساتھ پاکستان کا تجارتی حجم تقریباً 45 کروڑ ڈالرز ہے۔ یوں پاکستان افغان تجارتی راستہ بند ہونے سے تقریباً ڈھائی ارب ڈالرز کی تجارت کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور اس کے اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔
زیادہ نقصان پاکستانی معیشت، پاکستانی تاجروں اور عوام کا ہو گا۔ افغانستان کو بھی نقصان ہو رہا ہے لیکن ان کے نفع یا نقصان سے پاکستان کو فرق نہیں پڑتا۔
پاکستانیوں کے لیے اپنے ملک کے نفع اور نقصان کے اعدادوشمار اہم ہیں ناکہ افغانستان کے۔
پاکستان افغانستان کو زرعی اشیا، اشیائے خوردونوش، تعمیراتی سامان، صنعتی مصنوعات، مینوفیکچرنگ اشیا، گاڑیاں، مشینی آلات اور ادویات سمیت کئی اشیا برآمد کرتا ہے۔
ٹرانسپورٹ کسی بھی معیشت میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ تقریباً 12 سو کنٹینر اس وقت سڑکوں پر ہیں اور تقریباً ایک ارب 70 کروڑ روپے کا نقصان روزانہ ہو رہا ہے۔
ہر رکے ہوئے کنٹینر کے پیچھے ایک خاندان کی امیدیں اور محنت چھپی ہوتی ہیں، جو آج بے روزگار اور بے یقینی کے سائے میں جی رہے ہیں۔
آٹے کی صنعت متاثر ہو رہی ہے۔ بنوں، مردان، پشاور اور کوئٹہ میں فلور ملز کی فروخت متاثر ہوئی ہے۔
2022 میں چند روز کی بندش سے ان علاقوں میں تقریباً 40 فیصد فلور ملز بند ہو گئی تھیں اور آج اسی خوف کی گونج دوبارہ سنائی دے رہی ہے۔
صرف سیمنٹ کے شعبے میں تقریباً 40 کروڑ ڈالرز کا نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ افغانستان کی ضروریات کا تقریباً 30 فیصد سیمنٹ پاکستان سے جاتا ہے اور تقریباً 50 ہزار ملازمین کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
یہی سیمنٹ افغانستان کے راستے وسطی ایشیائی ممالک بھی جاتا تھا، جو اب بھیجنا مشکل ہے۔
متبادل راستے چترال سے ہو کر گزرتے ہیں لیکن ابھی تک انہیں استعمال نہیں کیا جا رہا۔
جب سپلائی چین میں رکاوٹ آتی ہے تو انفراسٹرکچر بری طرح متاثر ہوتا ہے اور اسے بحال کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ادویات کے شعبے پر بھی اثرات آ رہے ہیں۔ افغانستان کی ضرورت کی تقریباً 35 فیصد ادویات پاکستان برآمد کرتا تھا۔
ماہانہ تقریباً 20 ملین ڈالرز کی ادویات کی برآمد رکی ہوئی ہے، جو پاکستان کی ادویات کی تجارت کا تقریباً 4.5 فیصد اور ادویات کی برآمدات کا تقریباً 45 فیصد ہے۔
جب تجارت رکی ہوئی ہے تو نقصان صرف روپے اور ڈالر کا نہیں بلکہ انسانی زندگیوں اور صحت کی بنیادی ضرورتوں کا بھی ہے۔
پاکستان بارڈر ٹریڈ کونسل کے چیئرمین اور خیبر چیمبر آف کامرس کے صدر جواد حسین کاظمی کے مطابق: ’پاکستان افغان تجارت بند ہونے سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ تقریباً 80 فیصد تجارت طورخم اور چمن بارڈر سے ہوتی ہے۔
’ان علاقوں میں افغان تجارت ہی واحد بڑا ذریعہ معاش ہے۔ یہاں کوئی فیکٹری نہیں اور نہ ہی زراعت ہے۔
’سرحد پر آباد تقریباً 10 لاکھ لوگوں کا روزگار براہ راست پاکستان افغان تجارت سے جڑا ہے، جن میں ٹرانسپورٹ سرفہرست ہے۔
’یہ 10 لاکھ لوگ تقریباً ایک کروڑ لوگوں کو پالتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان افغان تجارت بند ہونے سے سرحد پر آباد تقریباً ایک کروڑ پاکستانیوں کا روزگار بند ہو گیا ہے تو غلط نہیں ہو گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جواد حسین کی رائے میں سرکار ان لوگوں کو متبادل ذریعہ معاش مہیا کرے یا پھر افغان ٹریڈ بحال کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔
بصورت دیگر ملک میں بے روزگاری شرح 6.5 فیصد سے بڑھے گی اور کرپشن اور جرائم میں اضافہ ہو گا۔
پاکستان میں افغان پھل اور خشک میوہ جات بہت شوق سے کھائے جاتے ہیں۔ تقریباً سالانہ نو کروڑ ڈالرز کے پھل اور خشک میوہ جات افغانستان سے درآمد کیے جاتے ہیں۔
پاکستان افغانستان سے انجیر، بادام، اخروٹ، کاجو، پستہ، کشمش، اخروٹ، سیب، ناشپاتی، انگور، آڑو، آلو بخارا اور خوبانی سمیت کئی پھل درآمد کرتا ہے۔
افغانستان کے خشک میوہ جات اور سیب پاکستان میں کافی مانگ رکھتے ہیں۔
پاکستان میں کچھ پھل جیسے انار، سیب، ناشپاتی افغانستان کے معیار کے برابر نہیں ہوتے، اس لیے درآمدات کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ سامان اب ایران کے راستے پاکستان پہنچ رہا ہے اور دگنی قیمت پر بیچا جا رہا ہے، جس سے مہنگائی بڑھ رہی ہے اور عام آدمی متاثر ہو رہا ہے۔
سردیوں میں خشک میوہ جات عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو گئے ہیں۔
پاکستان افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے صدر جنید مکڈا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’صرف افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں جو کرایہ پاکستان وصول کرتا تھا، اس میں حکومت کو 33 ملین ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے۔
’عام آدمی کو ہونے والے نقصان کا تخمینہ لگانا مشکل ہے۔ اس کے علاوہ ای سٹیمپ کورٹ اور ٹرمینل، ٹریکر کی کمپنیاں، شپنگ لائنز، بینک گارنٹی، انشورنش گارنٹی، ڈیٹینشن چارجز کی مد میں بھی نقصان ہو رہا ہے۔ مکمل اعدادوشمار تو حکومت ہی بتا سکتی ہے۔‘
جنید حسین نے مالی نقصان کا بتایا ہے لیکن حل سرکار کے پاس ہی ہے۔
سرکار کو فوراً قدم اٹھانے چاہیں تاکہ صرف اربوں ڈالر کی تجارت ہی نہیں بلکہ لاکھوں خاندانوں کے خواب، روزگار اور امیدیں بھی بچائی جا سکیں۔ جلد فیصلہ لینا چاہیے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔